ایک فلسفی جب اِس حقیقت کو جان گیا کہ وہ واقعی وجود رکھتا ہے تو اُس نے یہ ضرب المثل کہی: ’’میرا خیال ہے، اس لئے، میں ہوں۔‘‘ وہ اس طرح نہ کہہ سکا: ’’میں یہ تصور کر رہا ہوں کہ میں وجود رکھتا ہوں‘‘۔ جیسا کہ اُس نے اپنے بیان میں ’میں‘ کو شامل کیا تو وہ تسلیم کر رہا تھا کہ وہ خود سے وجود رکھتا ہے۔
ایک شخص کی خودی کائنات کی سب سے گہری چیزوں میں سے ایک ہے۔ اس کا فرض ہے کہ یہ ہمیں عاجز بنائے اور ہمارے اندر یہ سوچ پیدا کرے کہ ہم دوسروں سے ایک الگ شخصیت ہیں۔ ہم سمندر کے الگ الگ جزیرے ہیں۔ جو ہم محسوس کرتے ہیں کوئی دوسرا محسوس نہیں کرتا یا جو ہم سوچتے ہیں کوئی دوسرا نہیں سوچتا۔ یہ سب کچھ ہمارا اپنا ہے۔ یہ صرف اور صرف ہمارا حصہ ہیں جسے جدا نہیں کیا جا سکتا۔
ہماری انسانیت کے اس حصہ (خودی) میں ایک چیز رہتی ہے جو خُدا کے لئے بہت زیادہ اہم ہے یعنی ہماری مرضی۔ مرضی ہمارا وہ حصہ ہے جو درحقیقت اپنا ہے۔ فرض کریں کہ ہماری زندگی کانٹوں کے کمرے ہیں اور ہماری مرضی ہماری اس چھوٹی سی کائنات میں تخت نشین ہے۔ جب باہر سے کوئی معلومات ہماری مرضی کی طرف مائل ہوتی ہیں تو ہم اُسے اپنی خوشی کے مطابق قبول کرتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے ہم اپنی مرضی سے کوئی چیز منتخب کرتے ہیں۔ چونکہ ہماری اپنی ایک کائنات ہے اور ہماری مرضی اُس میں تخت نشین ہے تو یہ انتخاب حتمی ہوتا ہے۔
اس لئے جب کائنات کے دوسرے حصہ سے کوئی معلومات آئے تو ہماری مرضی تخت پر بیٹھی ہوتی ہے۔ ہمیں یہ آواز آتی ہے، ’’اے پیارے بادشاہ! مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ اگر آپ شامی کباب کا یہ تیسرا ٹکڑا کھائیں گے تو آپ کی حالت بہت زیادہ بگڑ جائے گی۔‘‘ یہ ہمارے ضمیر کی آواز ہے، ہم چاہیں تو اس کو اَن سنی کر دیں یا سن کر اِس کی طرف متوجہ ہوں۔ ہماری مرضی یہ کہتی ہے ، ’’بیوقوف! مجھ سے دور ہو جاؤ، میں تو شام کے کھانے کے بعد گلی کا ایک چکر لگاؤں گا اور سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘
اس اہم خیال کو سمجھنا چاہئے کیونکہ اس سے ظاہرہوتا ہے کہ ہم کیسے خُدا کی تعظیم کرتے ہیں۔ ہماری زندگی میں ممکنہ طور پر کوئی ایسا دور بھی آتا ہے جب ہمارا ضمیر ’’باہر‘‘ سے کوئی ایسی معلومات بھی لاتا ہے جس کا تعلق خُدا سے ہوتا ہے۔ یہ شاید کچھ اس طرح سے ہو سکتی ہے:
’’اے پیارے بادشاہ! مجھے یہ معلوم ہوا ہے (اور میں یقیناًآپ کو خبردار کرنا چاہتا ہوں) کہ کوئی ایسی ہستی جسے خُدا کہتے ہیں وہ آپ کی کائنات میں آنے کا داخلی رستہ تلاش کر رہا ہے۔ وہ فرماتا ہے کہ اُس کی حکومت کہیں بھی جانے کیلئے آزاد ہے لیکن وہ آپ کی کائنات میں اُس وقت تک نہیں آئے گی جب تک اُسے والہانہ انداز سے دعوت نہ دی جائے۔‘‘
’’وہ یہ بھی فرماتا ہے کہ اگر وہ اندر آئے گا تو جو فیصلے آپ اپنے تخت سے جاری کرتے ہیں شاید اُن پر اُس کا اثر و رسوخ بہت زیادہ ہو گا۔ میں معافی چاہتا ہوں لیکن وہ یہی فرماتا ہے۔ لیکن وہ فرماتا ہے کہ اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ کی کائنات ایک بہتر جگہ بن جائے گی۔ وہ فرماتا ہے کہ وہ محبت کرنے والا ہے اور وہی چاہتا ہے جو آپ کے لئے بہترین ہے یعنی وہ خود۔‘‘
’’اگر آپ کو بُرا نہ لگے تو اُس نے مجھے یہ تاثر دیا ہے کہ وہ آپ کے جیسا نہیں بلکہ وہ تو ایک کامل بادشاہ ہے۔ وہ فرماتا ہے کہ آپ خود سے زیادہ اُس پر بھروسہ کر سکتے ہیں۔ پس آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا آپ اسے اندر آنے کی اجازت دیں گے؟‘‘
کیا ہم سب نے اس طرح کا کوئی تجربہ نہیں کیا؟ خُدا ہمیں فیصلہ کرنے کی آزادی بخشتا ہے۔ یہ اُس کی عظمت ہے کہ وہ ہمارے ساتھ ایسا سلوک کرتا ہے۔ وہ ہتھیار لے کر ہماری کائنات میں نہیں آتا۔ اور نہ ہی ہمارے شہنشاہ کو بے تخت کرتا ہے۔ اس کی بجائے وہ اندر آنے کی اجازت لیتا ہے۔ اُس کے اپنے الفاظ میں ، یسوع نے کہا، ’’دیکھ میں دروازہ پر کھڑا کھٹکھٹاتا ہوں۔ اگر کوئی میری آواز سُن کر دروازہ کھولے گا تو میں اُس کے پاس اندر جاؤں گا‘‘۔
◄ | خُدا کو کیسے جانیں ۔۔۔ |
◄ | اگر آپ کوئی سوال پوچھنا یا اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہتے ہیں تو یہاں کلک کریں۔ |