از: جوش مکڈوول
میں نے خوش رہنے کی آرزو کی۔ میں دُنیا کا سب سے خوشحال شخص بننا چاہتا تھا۔ میں زندگی کو پُرمعنی بنانے کا خواہشمند بھی تھا۔ میں درج ذیل سوالات کے جواب ڈھونڈ رہا تھا:
’’میں کون ہوں؟‘‘
’’میں یہاں اس دُنیا میں کیوں ہوں؟‘‘
’’میں کہاں جا رہا ہوں؟‘‘
مزید میں نے آزاد ہونے کی بھی تمنا کی۔ میں دُنیا کا آزاد ترین شخص بننا چاہتا تھا۔ آزادی کا مطلب محض اپنی مرضی کے مطابق کام کرنا نہیں ہے یہ تو کوئی بھی کر سکتا ہے۔ میری نظر میں آزادی کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے پاس وہ کام کرنے کا اختیار ہو جو ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں کرنا چاہئے۔ بہت سے لوگ جانتے ہیں کہ انہیں کیا کرنا چاہئے لیکن اُن کے پاس ایسا کرنے کا اختیار نہیں۔ پس میں نے جوابات کو تلاش کرنا شروع کیا۔
ایسا لگتا تھا کہ ہر کوئی کسی قسم کے مذہب سے تعلق رکھتا تھا پس میں نے بظاہر نظر آنے والا کام کیا اور چرچ چلا گیا۔ میں لازماً کسی نامناسب چرچ میں چلا گیا تھا کیونکہ اس نے میری حالت پہلے سے بھی بدتر کر دی تھی۔ میں اُس چرچ میں صبح، دوپہراور شام جاتا رہا لیکن اُس نے میری کوئی مدد نہ کی۔ میں ایک عملی شخص ہوں اور اگر کوئی چیز کام نہ کرے تو میں اسے پھینک دیتا ہوں۔ پس میں نے مذہب کو ترک کردیا۔
میں نے حیران ہونا شروع کر دیا کہ شاید شہرت اِس کا جواب تھا۔ میں نے سوچا، راہنما بننے، کوئی مقصد اپنانے اور پھر اس کیلئے خود کو وقف کرنے کے بعد نام پیدا کرنے سے شاید کوئی بات بن جائے۔ یونیورسٹی میں طلباء کے راہنما کیلئے الیکشن ہوئے اور طلباء نے اس کیلئے جدوجہد کی۔ میں بھی پہلے سال کی طلباء یونین کا صدر بننے کی دوڑ میں شامل ہوا اور مجھے منتخب کر لیا گیا۔ ہر کسی کی نظر میں پذیرائی حاصل کرنا، فیصلے کرنا اور یونیورسٹی کا پیسہ اپنی پسند کے سپیکر کو بلانے پر خرچ کرنا ایک اہم بات تھی۔ یہ بہت اچھا تھا لیکن ہر آزمودہ چیز کی طرح اِس کا اثر بھی ختم ہو گیا ۔ میں پیر کی صبح جاگتا (اکثر گزری شب کی وجہ سے میرے سر میں درد ہوتا) اور میرا رویہ یہ ہوتا، ’’اچھا، پھر سے اور پانچ دن آ گئے‘‘۔ میں پیر سے جمعہ تک بڑی مشکل سے برداشت کرتا۔ میری خوشی تو صرف ہفتے کی تین راتوں پر محیط ہوتی یعنی جمعہ، ہفتہ اور اتوار۔ اور پھر دوبارہ ہفتے کا ایک بدنما چکر شروع ہو جاتا۔
مجھے شک ہے کہ اِس مُلک کی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں بہت تھوڑے لوگ میری طرح زندگی کا مطلب ، مقصد اور سچائی سنجیدگی سے تلاش کر رہے تھے۔
اس دوران میں نے غورکیا کہ لوگوں کا ایک چھوٹا سا گروہ تھا جس میں آٹھ طلباء اوردو اساتذہ شامل تھے۔ انکی زندگیوں میں کچھ مختلف تھا۔ ایسا محسوس ہوتا کہ وہ جانتے تھے کہ وہ کیوں کسی بات پر یقین رکھتے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ اُنہیں معلوم تھا کہ وہ کہاں جا رہے تھے۔
جن لوگوں پرمیں نے غورکرنا شروع کیا وہ نہ صرف محبت کی بات کرتے بلکہ اس میں پیوست بھی تھے۔ وہ شاید یونیورسٹی کے حالاتِ زندگی سے آگے چل رہے تھے۔ جب ہر کوئی بوجھ تلے دبا ہوا لگتا تھا ان کی زندگی تسلی بخش اور اطمینان بخش تھی اور وہ حالات کی چکی میں پِس نہیں رہے تھے۔ ایسا نظر آتا کہ ان کے اندر خوشی کا ایک چشمہ جاری تھا۔ وہ بہت زیادہ پُرمسرت تھے۔ ان کے اندر کچھ ایسا تھا جو میرے پاس نہ تھا۔ ایک متوسط طالب علم کی طرح جب کسی کے پاس کچھ ایسا ہوتا جو میرے پاس نہ تھا تو میں اُسے حاصل کرنا چاہتا۔
پس میں نے ان سازباز کرنے والے لوگوں کو دوست بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کے دو ہفتوں بعد ہماری طلباء یونین۔۔۔ چھ طلباء اور دو اُساتذہ ایک میز کے چوگرد بیٹھے ہوئے تھے۔ خُدا کے بارے میں جاننے پر گفتگو شروع ہوئی۔
وہ مجھے پریشان کر رہے تھے اِس لئے میں نے ایک طالبہ کی طرف دیکھنا شروع کر دیا جو کہ ایک حسین عورت تھی (میرا خیال تھا کہ سب مسیحی بدصورت ہوتے ہیں)، اور میں اپنی کرسی پر پیچھے کی جانب جھک گیا (میں نہیں چاہتا تھا کہ دوسرے یہ سمجھیں کہ میں اس میں دلچسپی لے رہا تھا) اور میں نے کہا، ’’مجھے بتاؤ کہ تمہاری زندگی کیسے تبدیل ہوئی؟ تم لوگوں کی زندگی کیمپس کے دوسرے لوگوں سے کیوں فرق ہے؟‘‘ اس عورت کا عقیدہ یقیناًپختہ تھا۔ اس نے میری آنکھوں میں دیکھ کر صرف دو الفاظ : ’’یسوع مسیح‘‘ کہے، مجھے یقین نہ تھا کہ میں اپنے سوال کے ایک حصہ کے حل کے طور پر اس طرح کے الفاظ کبھی سنوں گا۔
میں نے کہا، ’’آہ! خُدا کے لئے مجھے اس طرح کی بُری باتیں نہ بتاؤ۔ مجھے مذہب سے اُکتاہٹ ہے۔ میں چرچ سے عاجز آگیا ہوں۔ میں بائبل سے بھی بیزار ہو گیا ہوں۔ مجھے مذہب کی گندی باتیں نہ سکھاؤ‘‘۔
اس نے چلاتے ہوئے کہا، ’’سنو، میں نے مذہب کی بات نہیں کی، میں نے تو یسوع مسیح کہا۔‘‘ اس نے ایک ایسی بات کی طرف اشارہ کیا جو میں پہلے نہیں جانتا تھا: مسیحیت مذہب نہیں ہے۔ مذہب میں لوگ نیک اعمال کے ذریعہ خُدا تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن مسیحیت میں تو خُدا مردوں اور عورتوں کے پاس یسوع مسیح کے وسیلہ سے ایک رشتہ قائم کرنے کیلئے آتا ہے۔
شاید یونیورسٹیوں کے اندر دُنیا کے دوسرے حصوں کی بجائے مسیحیت کے متعلق غلط خیالات رکھنے والے لوگ زیادہ ہیں۔ ایک عرصہ پہلے میں اُستاد کے ایک معاون سے ملا جس نے گریجوایشن کے سیمینار میں بیان دیا ، ’’چرچ میں جو بھی جائے وہ مسیحی بن جاتا ہے۔ میں نے جواب دیا،’’کیا گیراج میں جانے سے آپ ایک کار بن جائیں گے؟‘‘ مجھے بتایا گیا کہ ایک مسیحی وہ ہے جو حقیقی طور پر مسیح پر ایمان رکھتا ہے۔
جب میں نے مسیحیت پر غور کیا تو میرے نئے دوستوں نے مجھے چیلنج دیا کہ میں منطقی بنیادوں پر یسوع کی زندگی کو پرکھوں۔ میں نے یہ سیکھا کہ بدھا، کنفیوشسن اور محمد نے خُدا ہونے کا دعویٰ نہ کیا لیکن یسوع نے ایسا کیا۔
میرے دوستوں نے کہا کہ میں یسوع کے خُدا ہونے کے ثبوت تلاش کروں۔ انکا یہ عقیدہ تھا کہ یسوع انسانی شکل میں خُدا ہے جس نے صلیب پر انسان کے گناہوں کے لئے جان دی، دفن ہوا، تین دن کے بعد جی اُٹھا اور وہ آج بھی ایک شخصی زندگی کو تبدیل کر سکتا ہے۔
میں نے سوچا کہ یہ ایک مضحکہ خیز بات تھی ۔ درحقیقت میں یہ سمجھتا تھا کہ زیادہ تر مسیحی بیوقوف ہیں۔ میں چند ایک سے مل چکا تھا۔ میں کمرہ جماعت میں انتظار کرتا تھا کہ کوئی مسیحی بات کرے اور میں اسے پھاڑ دوں اور پروفیسر کو مُکے ماروں۔ میں یہ تصور کرتا کہ اگر کسی مسیحی کے دماغ میں ایک خلیہ ہوتا تو وہ تنہائی سے مر جاتا۔ میں کسی بہتر مسیحی سے نہیں ملا۔
لیکن ان لوگوں نے مجھے بار بار چیلنج دیا۔ آخر کار میں نے اُن کے چیلنج کو قبول کر لیا۔ میں نے غرور میں اُن کو رَد کر نے کیلئے ایسا کیا اور میں جانتا تھا کہ اس میں کوئی حقیقت نہ ہو گی ۔ میں نے فرض کر لیا کہ کوئی ایسا ثبوت نہ تھا جس کو کوئی شخص تول سکتا۔
مہینوں کی ورق گردانی کے بعد میں اِس نتیجے پر پہنچا کہ یسوع مسیح درحقیقت وہی ہے جو اُس نے دعوے کیے تھے۔ اس سے ایک مسئلہ درپیش آیا ۔ میرے ذہن نے کہا کہ یہ سچ تھا لیکن میرا ارادہ مجھے مخالف سمت میں کھینچ رہا تھا۔
میں نے یہ دریافت کیا کہ مسیحی بننے کا مطلب ہے خودی سے انکار کرنا۔ یسوع نے براہ راست خود پر یقین دلوانے کیلئے میرے ارادے کو چیلنج دیا۔ میں اس کی وضاحت کرتا ہوں۔ ’’دیکھ میں دروازہ پر کھڑا ہوا کھٹکھٹاتا ہوں۔ اگر کوئی میری آواز سن کر دروازہ کھولے گا تو میں اس کے پاس اندر جا کر اس کے ساتھ کھانا کھاؤں گا اور وہ میرے ساتھ‘‘۔ (مکاشفہ 20:3) مُجھے اس کی پرواہ نہ تھی کہ یسوع نے پانی پر چل کر دکھایا، پانی کو مے میں تبدیل کر دیا، میں کسی پارٹیوں کے رسیا کو اپنے قریب نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔ مجھے وقت کو بہتر طور سے استعمال کرنے کی کوئی راہ بھی دکھائی نہیں دیتی تھی ۔ پس میرا ذہن یہ کہتا تھا کہ مسیحیت ایک سچائی ہے لیکن میرا ارادہ اس سے اختلاف رکھتا تھا۔
میں جب بھی اُن پُرجوش مسیحیوں کے درمیان جاتا تو یہ تنازعہ کھڑا ہو جاتا۔ اگر آپ اپنی مصیبت میں کبھی خوشحال لوگوں کے بیچ جائیں تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ وہ آپ کے ساتھ کیسا برتاؤ کریں گے۔ وہ تو بہت زیادہ خوش ہونگے لیکن میں بہت بُرا محسوس کروں گا بلکہ اس طلباء یونین کو چھوڑ کر بھاگ جاؤں گا ۔ یہ حالت یہا ں تک بدتر ہو گئی کہ جب میں رات کے وقت دس بجے سونے کیلئے جاتا تو صبح چار بجے تک مجھے نیند نہ آتی ۔ مجھے معلوم تھا کہ مجھے اِسے اپنے ذہن سے نکالنا ہو گا اس سے پہلے کہ میں پاگل ہو جاتا۔ آخر کار میرا دل اور ذہن 19دسمبر 1959 رات 8بج کر 30منٹ پر باہم متفق ہو گئے اور یونیورسٹی کے دوسرے سال ہی میں ایک مسیحی بن گیا۔
یسوع مسیح کے ساتھ اپنا رشتہ قائم کرنے کیلئے اس رات میں نے چار چیزوں کیلئے دُعا کی جو اب تک میری زندگی کو مسلسل تبدیل کرتی جا رہی ہیں۔ اوّل میں نے کہا، ’’خُداوند یسوع میرے لئے صلیب پر مرنے کا شکریہ!‘‘دوم، میں نے کہا ’’میں اپنی زندگی میں اُن باتوں کا اقرار کرتا ہوں جو تجھے ناخوش کرتی ہیں اور منت کرتا ہوں کہ مجھے پاک صاف کر۔‘‘ سوئم، ’’میں نے کہا، ’’اب میں نے بہتر طور سے یہ جانا ہے کہ میں اپنے دل اور زندگی کے دروازے کو کیسے کھولوں اور تجھے اپنا نجات دہندہ اور خُداوند قبول کروں۔ میری زندگی کو اپنے اختیار میں لے لے۔ مجھے اندر اور باہر سے تبدیل کر دے۔ مجھے وہ شخص بنا دے جس مقصد کیلئے تو نے مجھے خلق کیا ہے۔‘‘ آخری بات جس کیلئے میں نے دُعا کی، ’’ایمان کے وسیلہ سے میری زندگی میں آنے کا شکریہ!‘‘ یہ سب کم علمی پر نہیں بلکہ ایمان کی بنیاد پر ہوا لیکن اس میں خُدا کا کلام اور تاریخی شواہد شامل تھے۔
مجھے یقین ہے کہ آپ نے بہت سے لوگوں سے یکایک شخصی تبدیلی کے تجربے کو سنا ہو گا۔ ٹھیک ہے، لیکن جب میں نے دُعا کی تو کچھ بھی نہ ہوا۔ میرا مطلب ہے کچھ بھی عجیب نہ ہوا۔ میرے پَر نہیں نکل آئے ۔ درحقیقت اس فیصلے کے بعد میری حالت بدتر محسوس ہوئی۔ مجھے محسوس ہوا کہ جیسے مجھے قے آ جائے گی۔ افسوس!میں نے سوچا میں اب کس مصیبت میں پھنس گیا ہوں؟ درحقیقت مجھے لگا کہ میں اپنی جستجو کی انتہا تک پہنچ گیا ہوں۔(اور کچھ لوگوں نے بھی یہ سوچا کہ ایسا ہی ہے۔)
لیکن ڈیڑھ سال کے عرصہ میں چھ ماہ تک میں نے محسوس کیا کہ میری زندگی اُس حالت کی انتہا تک نہ پہنچی تھی۔ میری زندگی تبدیل ہو چکی تھی۔ ایک دفعہ مڈِویسٹرن یونیورسٹی میں شعبہ تاریخ کے سربراہ سے میری بحث ہوئی اور میں نے کہا کہ میری زندگی تبدیل ہو چکی تھی۔اس نے مداخلت کی ، ’’مکڈووّل، کیا تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ بیسویں صدی میں خُدا نے تمہاری زندگی کو واقعی تبدیل کر دیا؟ کن کن حصوں میں؟ ‘‘ 45منٹ کے بعد اس نے کہا، ’’ٹھیک ہے، اتنا کافی ہے‘‘۔ میں آپ کو چند ایک باتیں بتانا چاہتا ہوں جو میں نے اُس سے اور سامعین سے اُس وقت کہیں۔
پہلا حصہ، خُدا نے میری بے چینی کو تبدیل کیا ۔ یہ ہمیشہ میرے سر پر سوار رہتی تھی۔ جب میں کیمپس میں گھومتا تو میرا ذہن بھنور کی طرح چکر کھاتا رہتا اور اختلافات میرے ذہن کی دیواروں سے ٹکراتے رہتے۔ میں پڑھنے کے لئے بیٹھتا لیکن پڑھ نہ سکتا۔ جب میں نے مسیح کے لئے فیصلہ کیا تو اس کے چند ماہ بعد میرے اندر ایک ذہنی سکون پیدا ہو گیا۔ اس کو غلط مت سمجھیں۔ میں اختلافات کی غیرحاضری کی بات نہیں کر رہا۔ یسوع کے ساتھ اِس رشتے میں میرے اختلافات دور نہ ہوئے بلکہ میرے اندر اُن پر قابو پانے کی قابلیت پیدا ہو ئی۔ میں دُنیا کی کسی بھی چیز کی خاطر اس کا سودا نہ کروں گا۔
اس کے علاوہ میری بدمزاجی بھی تبدیل ہونا شروع ہو گئی۔ اگر کوئی میری طرف گھورتا تو میں اسے پیٹنا شروع کر دیتا۔ میرے جسم پر ابھی تک وہ زخم موجود ہیں جب میں نے اپنے کالج کے پہلے سال کے دوران ایک لڑکے کو ادھ موا کر دیا۔ میرا مزاج میری زندگی کا ایک ایسا حصہ تھا جسے میں نے اپنی سمجھ سے تبدیل کرنے کی کوشش نہ کی ۔ میں پاگل ہونے کے در پر ہی تھا کہ میری بدمزاجی ختم ہو گئی ۔ 14سالوں میں پہلی دفعہ مجھے اس بدمزاجی سے آزادی کا تجربہ حاصل ہوا۔
میری زندگی میں ایک اور حصہ ہے جس پر مجھے فخر نہیں ہے لیکن میں اس کا ذکر کرتا ہوں کیونکہ بہت سے لوگوں کو اپنی زندگیوں میں اسی طرح کی تبدیلی کی ضرورت ہے اور میں نے اس تبدیلی کا سرچشمہ یسوع مسیح کے ساتھ رشتہ استوار ہونے کے بعد پایا۔ یہ حصہ نفرت کا ہے۔ میری زندگی میں حسد اور بغص بہت زیادہ تھا لیکن یہ بظاہر نظر نہیں آتا تھا لیکن میں اندر ہی اندر پس رہا تھا۔ جس کے باعث میں لوگوں، حالات اور دیگر چیزوں سے الگ ہو گیا تھا۔
لیکن میں نے دُنیا میں جس شخص سے سب سے زیادہ نفرت کی وہ میرا باپ تھا۔ مجھے اس کے ارادوں سے نفرت تھی۔ میرے لئے وہ محض قصبے کا ایک شرابی شخص تھا۔ ہر کسی کو معلوم تھا کہ وہ شرابی تھا۔ جب وہ قصبے کے کسی تجارتی حصہ میں لڑکھڑاتا ہوا چلتا تو میرے دوست اُس کا مذاق اُڑاتے۔ انہوں نے یہ نہ سوچا کہ مجھے اس سے تکلیف پہنچتی تھی۔ میں بھی دوسرے لوگوں کی طرح ظاہری طور پر تو ہنستا لیکن حقیقت یہ تھی کہ میں اندر سے روتا تھا۔بہت دفعہ میں نے ایسا بھی دیکھا کہ میری ماں مار کھانے کی وجہ سے اتنی زخمی تھی کہ اُٹھ بھی نہ سکتی تھی اور اکثر بھینسوں کے باڑے کے پیچھے گری ہوئی ملتی تھی۔ جب کبھی میرے دوستوں کا میرے گھر آنا ہوتاتو میں اپنے باپ کو لے جا کر باڑے میں باندھ دیتا تھا اور گاڑی باڑے کے دروازے کے سامنے کھڑی کردیتا تھا۔میں اپنے دوستوں کو بتاتاتھا کہ میرا باپ کہیں باہر گیا ہوا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ کسی نے اپنے باپ سے اتنی نفرت کی ہو گی جتنی کہ میں کرتا تھا۔
جب میں نے مسیح کو قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا تو وہ میری زندگی میں داخل ہو گیا اور اس کی محبت اتنی زور آور تھی کہ اس نے میری نفرت کو تبدیل کر دیا۔میں اپنے باپ کی آنکھوں میں مصلحت بھری نگاہ سے دیکھ کر یہ کہنے کے قابل ہو گیا، ’’اے باپ! میں تجھ سے محبت کرتا ہوں۔‘‘ اور میں واقعی ایسا کرتا تھا۔ جب میں نے اس طرح کے چند ایک کام کیے تو اُس میں تبدیلی آنا شروع ہو گئی۔
جب میں ایک غیرسرکاری یونیورسٹی میں منتقل ہو رہا تھا تو میرے ساتھ ایک شدید حادثہ پیش آیا۔ میری گردن زخمی ہونے کے باعث اکڑاؤکی حالت میں تھی۔جب مجھے گھر لے جایا گیا میں وہ لمحہ کبھی نہیں بھولوں گا جب میرا باپ میرے کمرے میں آیا۔ اس نے مجھ سے پوچھا، ’’بیٹا، تم مجھ جیسے باپ سے کیسے محبت کر سکتے ہو؟‘‘ میں نے جواب دیا۔ ’’اے باپ، چھ ماہ پہلے مجھے آپ سے کراہیت تھی۔‘‘
جب میں نے اپنے باپ کو بتایا کہ مسیح کی ذات کے بارے میں مَیں کس نتیجہ پر پہنچا ہوں۔جب میں نے یسوع مسیح کو اپنی زندگی میں آنے کی دعوت دی۔ میں اسے مکمل طور پر بیان نہیں کر سکتا لیکن اس رشتے کے نتیجہ میں مَیں نے محبت کے حقیقی معنوں کو جان لیا ہے اور نہ صرف تجھے بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی جیسی حالت میں وہ ہیں اُسی حالت میں قبول کرتا ہوں۔‘‘
پینتالیس منٹ کے بعد میری زندگی کا ایک بہت بڑا جذباتی واقع پیش آیا۔ میرے اپنے خاندان میں سے جو مجھے بڑی اچھی طرح جانتا تھا جس کی آنکھوں سے میں کچھ بھی چھپا نہیں سکتا تھا، اس نے کہا، ’’بیٹے ، اگر خُدا میری زندگی میں بھی وہی کام کرسکتا ہے جو اس نے تمہاری زندگی میں کیا تو میں اسے اِس کا موقع دیتا ہوں۔‘‘ اُسی وقت میرے باپ نے میرے ساتھ مل کر دُعا کی اور اپنے گناہوں کی معافی کے لئے خود کو مسیح کے حوالے کر دیا۔عموماً تبدیلی کئی دنوں، ہفتوں، مہینوں یا ایک سال کے بعد آتی ہے۔ میرے باپ کی زندگی میری آنکھوں کے سامنے تبدیل ہو گئی۔ یہ بالکل ایسے تھا جیسے کوئی آگے بڑھ کر بلب جلا دیتا ہے۔ میں نے اس طرح کی فوری تبدیلی کبھی اس سے پہلے یا بعد میں نہیں دیکھی تھی۔ میرے باپ نے اُس کے بعد صرف ایک دفعہ شراب کو چھوا۔ اُس نے اسے اپنے ہونٹوں سے اتنا دور کر دیا جتنا وہ کر سکا اور اب یہ قصہ ختم ہو چکا تھا ۔ اب میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یسوع مسیح کے ساتھ شخصی تعلق زندگیوں کو تبدیل کر دیتا ہے۔
آپ مسیحیت پر قہقہہ لگا سکتے ہیں۔ اس کا مضحکہ اُڑا سکتے ہیں۔ لیکن یہ اثر کرتی ہے۔ یہ زندگیاں تبدیل کر تی ہے۔ اگر آپ مسیح پر بھروسہ رکھتے ہیں تو اپنے رویوں اور افعال پر غور کرنا شروع کیجئے۔ کیونکہ یسوع مسیح انہیں تبدیل کر رہا ہے۔ لیکن مسیحیت کوئی ایسی چیز نہیں جسے آپ کسی کے حلق میں اُتار سکیں۔ میں صرف آپ کو وہ بتانا چاہتا ہوں جو میں نے سیکھا۔ اس کے بعد یہ آپ کا اپنا فیصلہ ہو گا۔
شاید وہ دُعا آپ کی مدد کر سکے جو میں نے مانگی: ’’خُداوند یسوع مجھے تیری ضرورت ہے۔ صلیب پر میرے لئے جان دینے کا شکریہ! مجھے پاک صاف کر۔ اسی وقت میں تجھے اپنا نجات دہندہ اور خُداوند قبول کرتا ہوں۔ مجھے وہ شخص بنا دے جس مقصد کیلئے تو نے مجھے خلق کیا۔ مسیح کے نام میں۔ آمین