یہ کسی بھی شخص کے لئے جو یسوع کے متعلق جاننے کا اشتیاق رکھتا ہے ایک نہایت قابلِ احترام پیش کش ہوگی ۔ اس میں کوئی چیلنج نہیں کیا گیا اور اس میں کسی زاویہ سے ، کسی مذہب کے خلاف کسی قسم کی کوئی تنقید نہیں ہوگی ۔
ذیل میں چھ سوال دیے جاتے ہیں جن کا اس مضمون میں جواب دیا گیا ہے :
1-کیا بائبل اپنی اصل حالت سے تبدیل کردی گئی ہے ؟
2-کیا خدا فرماتا ہے کہ ایک مذہب دوسرے کی جگہ اختیار کر لے گا یعنی یہودیوں سے مسیحیت اور پھر اسلام؟
3-کیا یہ کہنا کفرنہیں کہ خدا کاایک بیٹا ہے ؟
4- کیا یسوع صلیب پر موا ؟
5-اگر یسوع صلیب پر مرگیا توکیا خدا تین دن تک مُردہ رہا ؟
6-کیا ہم یسوع کو ایک نبی کی صورت میں نہیں دیکھ سکتے ؟
بطور تعارف، بائبل میں سے چند بیانات دیے گئے ہیں ۔ جب تک زمین اورآسمان ٹل نہ جائیں اور ہر چیز کا خاتمہ نہ ہو جائے ، توریت میں سے چھوٹے سے چھوٹا حرف ، کوئی نقطہ یا شوشہ ہرگز نہ مٹے گا ۔
خدا کا کلام ختم نہیں ہوگا ۔اس میں درج ہر چیز خاتمہ تک مکمل طور پر حاصل کر لی جائے گی ۔کلام میں پھر لکھا ہے کہ زمین اور آسمان ٹل جائیں گے ۔لیکن میرے منہ کی باتیں ہر گز نہ ٹلیں گی ۔ ایک جگہ اور لکھا ہے سارا کلام خداکے منہ سے نکلتا ہے جو کہ راستبازی میں تعلیم، نصیحت ، اصلاح اور تربیت کیلئے مفید ہے ۔ سارا کلام خدا کا الٰہام ہے ۔ اور پھر لکھا ہے کہ گھاس مرجھا جاتی ہے اور پھول کملا جاتے ہیں لیکن خدا کا کلام ہمیشہ قائم رہتا ہے ۔ہمیں خود سے یہ سوال پوچھنے کی ضرورت ہے۔ ’’ کیا خدا اپنے کلام کی حفاظت کرنے کی لیاقت رکھتا ہے ؟ کیا خدا ان بیانات کو ثابت کرسکتا ہے کہ اس کاکلام کبھی نہ ٹلے گا اور کبھی بے تاثیر نہ لوٹے گا ؟‘‘
کیا خدا یہ اہلیت رکھتا ہے ؟ ہاں ۔ بالکل! خدا کا یہ کلام سب لوگوں کے لئے ہے ۔ یہ کہنے سے کہ خدا اپنے کلام کو تبدیل ہونے سے نہ بچا سکا ، کیا ہم اسے قصوروار نہیں ٹھہراتے ؟ کچھ تبدیل نہیں کیا گیا ۔یہ صرف ایک افواہ ہے ۔قرآن یہ نہیں کہتا کہ بائبل تبدیل ہو چکی ہے ۔ اس کے برعکس ،یہ توریت اور بائبل کا احترام کرتا ہے ۔ اس میں توریت ، زبور اور انجیل کا کئی دفعہ ذکرملتا ہے ۔ یسوع مسیح سے چھ سوسال بعد جب چھٹی صدی عیسوی میں اسلام وجود میںآیا توبائبل کو ایک سچائی کے طور پر قبول کیا گیا ۔پس آپ یہ سوال کر سکتے ہیں کہ کیا بائبل چھٹی صدی مسیح سے تبدیل ہوئی ؟ نہیں ۔ آپ صرف آج کی بائبل کا موازنہ عرصہ پہلے لکھی گئی بائبل سے کیجئے ۔ قرآن کی قلمبندی سے سینکڑوں سال پہلے300عیسوی میں بھی بائبل کو مکمل صورت میں پایا جا سکتا ہے ۔ آپ اس کا مسودہ لندن میوزم ، ویٹی کن اور بہت سی دوسری جگہوں پر دیکھ سکتے ہیں۔اگر آپ آج کی بائبل کو300عیسوی کی بائبلوں کے سامنے رکھیں تو دورِ حاضر کی ہماری بائبل بالکل ویسے ہی ہے ۔کیا آپ جانتے تھے کہ آج بھی نئے عہد نامہ کے حصوں کے 25,000مسودے موجود ہیں ؟جب تاریخ دانوں نے اس مسودوں کا موازنہ کیا تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ دورِ جدید کا نیاعہد نامہ ان کے مقابلہ میں کم ازکم 99.5%درست ہے ۔ اس میں کوئی تبدیلی نہیں ۔ (5%کا فرق صرف املا کی اغلاط میں ہے لیکن ان کے معنوں میں کوئی تبدیلی نہیں )
شاید آپ علم آثارِ قدیمہ کی جدیدترین دریافت بحر مردار کے طوماروں سے بھی واقف ہوں ۔ یہ بحر مردار کے شمال مغربی کنارے سے تھوڑا دور قمرآن کی غاروں میں پائے گئے ۔ محققین نے عصرِ حاضر کی بائبل کو ان دریافتوں کے ساتھ ملایا اور انہوں نے تقریباً 100%ہو بہو پایا ۔ کسی شخص کو یہ مت کہنے دیں کہ آپ کا نیا عہد نامہ یا بائبل اپنی اصلی تحریر کھو چکا ہے ۔ یہ بیان تاریخی اعتبارسے بالکل درست نہیں۔ بائبل تبدیل نہیں ہوئی ۔
ٹھیک ہے ۔ اناجیل چار ہونے کے متعلق کیا خیال ہے ؟ کیا وہ مختلف مقدس کتابیں نہیں؟ کیا وہ ایک دوسرے سے مختلف نہیں؟
جی ہاں !نئے عہد نامہ میں اناجیل چارہی ہیں: متی ، مرقس ، لوقا اور یوحنا ۔ دراصل یہ اس بات کو ظاہر کرنے میں ہماری معاونت کرتی ہیں کہ بائبل میں کبھی ملاوٹ نہ کی گئی ۔ یہ چارگواہیاں یسوع کے حالاتِ زندگی پر مبنی ہیں یعنی جو کچھ اس نے کہا اور کیا ۔ فر ض کیجئے کہ دو یاچار لوگ کسی گلی کے موڑ پر ایک کار کا حادثہ دیکھتے ہیں ۔ اب ہر ایک شخص سے کہاجاتاہے کہ عدالت میں بطور گواہی اس حادثے کا آنکھوں دیکھاحال تحریر کرے۔ کیاآپ سمجھتے ہیں کہ ہر شخص کی گواہی کی وضاحت لفظ بہ لفظ ایک جیسی ہوگی ؟ بالکل نہیں ۔ ہر شخص اپنے اپنے زاویہ کے مطابق اپنی وضاحت پیش کرے گا ۔ بالکل اسی طرح سے یسوع کے گواہوں نے اسکی سوانح عمری کی گواہیوں کو قلمبند کیا ۔
صدیوں تک عدالتی نظام میں گواہیاں کلیدی کردارادا کرتی رہی ہیں ۔ اور اہم ترین معاملات میں کسی ایک شخص کی گواہی دوسرے کے خلاف ناقابلِ قبول ہوتی ہے ۔ ہمیں اکثر و بیشتر ایک سے زائد گواہیوں کی ضرورت پڑتی ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ نئے عہد نامہ کا ایک بیان عہدِ عتیق سے لیا گیا ہے یعنی ہر معاملہ دو یا تین لوگوں کی گواہی سے طے پائے ۔یسوع کی گواہی محض چار لوگوں نے تحریر نہیں کی بلکہ اور بھی بہت سی گواہیاں ہیں مثلاً یعقوب ، پولس ،پطرس اور دوسرے لوگوں نے نئے عہد نامہ میں باقی ماندہ کتابیں ضبط تحریر کیں ۔ یوحنا نے کہا ہم وہ بیان کرتے ہیں جو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے ہاتھوں سے چھو کر محسوس کیا ۔ پس وہ لوگ یسوع کے گواہ تھے ۔ اس لئے انہوں نے وہی لکھا جو کچھ دیکھا ۔
کسی شخص کو یہ مت کہنے دیں کہ آپ کا نیا عہد نامہ یا بائبل اپنی اصلی تحریر کھو چکا ہے ۔ یہ بیان تاریخی اعتبارسے بالکل درست نہیں۔ بائبل تبدیل نہیں ہوئی ۔
جن زبانوں میں بائبل تحریر کی گئی اورجن میں ترجمہ کیا گیاان کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
بائبل عبرانی اور یونانی زبانوں میں تحریر کی گئی ۔ ہر بائبل چاہے اس کاسنِ اشاعت کچھ بھی ہو اصلی زبانوں عبرانی اور یونانی سے ترجمہ کی جاتی ہے ۔(مثال کے طور پر کوئی بھی بائبل انگریزی سے انگریزی میں ترجمہ نہیں ہوتی ۔ اسے ہمیشہ اصل عبارت سے شروع کیا جاتا ہے )چند ایک ایسی بائبلیں ہیں جو کہ ترجمہ نہیں بلکہ تفسیر ہیں ۔ انہیں تفسیر کے طورپرجانا جاتا ہے ۔ تاہم تراجم وہ چیز بیان کرتے ہیں جو کچھ عبرانی اور یونانی کی اصلی عبارت میں ہوتا ہے ۔ بائبل کی عبرانی اوریونانی تحریریں ہزاروں دیگرزبانوں میں ترجمہ کی جا چکی ہیں ۔ کیوں؟ کیونکہ خدا چاہتا ہے کہ دُنیا میں ہر شخص تک نجات کی خوشخبری پہنچے۔
بائبل کا ترجمہ کرنا مشکل کام نہیں ہے ۔ بائبل کے چند حصے ایسے ہیں جو کہ شاعرانہ زبان میں ہیں (امثال ، غزل الغزلات اور زبور)۔ لیکن بائبل کی اصل زبان تو سادہ اور عام فہم ہے جو کہ ہماری روزمرہ زندگی سے وابستہ ہے ۔ اس کا ترجمہ کرنا انتہائی مشکل کام نہیں ۔ بائبل کے بیان میں سادگی اور روانی اس پر یقین کرنے کی ایک اور وجہ ہے ۔
آئیے ایک سچی کہانی پڑھتے ہیں ۔
میر ے بیٹے نے ایک دن مجھے فون کیا ۔ وہ کسی دوسرے ملک میں تھا اور کسی بہت بڑی سڑک کے درمیان کھڑا تھا جہاں اس کی کار کا حادثہ ہوا تھا ۔ کوئی دوسری کار اس کی کار سے ٹکرا گئی ۔ وہ سڑک کے بیچ کسی غلط سمت میں کھڑا تھا اور درجہ حرارت 180ڈگری تک گرگیا تھا ۔ اس نے کہا ’’ ابا جان ! میں بالکل ٹھیک ہوں ۔ لیکن اب میں کیا کروں؟‘‘ و ہ مشکل میں تھا ۔ اسے مدد کی اشد ضرورت تھی ۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس وقت میں اسے کوئی شاعرانہ پیغام بھیجوں گا ؟ کوئی ایسی نظم جو میں نے زبانی یاد کی ہو ؟ بالکل نہیں ۔
اب وقت ہے کہ میں اسے محض یہ کہوں ۔ ’’ جان اب تمہیں یہ کرنا ہے ۔ تم ایک بہت بڑی مصیبت میں ہو اور تمہیں اس طریقے سے اس میں سے نکلنا ہے ۔‘‘ اصل میں یہی بائبل کا مقصد ہے ۔ انسانیت مصیبت میں ہے اورجہنم کی طرف بڑھ رہی ہے ۔کیونکہ سب نے گناہ کیا اور خدا کے جلال سے محروم ہیں۔ اب ہمیں صرف نجات کے پیغام کی ضرورت ہے ۔ بائبل بیان کرتی ہے کہ ہم کیسے بخشش حاصل کر سکتے ہیں اور کیسے خدا کے ساتھ گہرا رشتہ جوڑ سکتے ہیں جو کہ اب سے شروع ہوکر ابد تک قائم رہتا ہے ۔ یہی وہ پیغام ہے جو ہماری زندگی کوتبدیل کرتاہے ۔
کیا خدا کی یہ مرضی تھی کہ ہم یہودیت سے آغاز کر کے مسیحیت تک آتے اورپھر اسلام میں تبدیل ہو جاتے ؟ نہیں ۔ خدا ہمیشہ سے مستعد ہے ۔ وہ کبھی مذہب پرستی پرقائل نہ تھا ۔ابرہام سے لے کر خدا ہمیشہ خود کو ہم پر ظاہر کرتاآیا ہے تاکہ ہم اس کے ساتھ ایک رشتہ قائم کر سکیں ۔ تصویر خدا کا ہمیں خلق کرنے کا ابدی منصوبہ یہ تھا کہ ہمارا اس سے کوئی مذہب نہیں بلکہ رشتہ قائم ہو ۔آئیے آدم اور حوا کے ساتھ ابتدا کے متعلق جانتے ہیں ۔
ان کا براہ راست خدا سے رابطہ تھااور ان کی سب ضرورتیں پوری ہوجاتی تھیں ۔اور پھر شیطان سانپ کی شکل میں ظاہر ہوا اور آدم او رحواکو آزمایا ۔ بدقسمتی سے انہوں نے شیطان کی باتوں کا یقین کر کے خدا کی نافرمانی کی ۔ اس کے نتیجہ میں آدم اور حوا کا خدا کے ساتھ رشتہ ٹوٹ گیا۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ خدا نے فوراً شیطان سے کیا کہا ؟ خدا نے کہا کہ ایک عورت کا بچہ شیطان کا دشمن ہوگا۔خدا نے کہا کہ شیطان بچے کی ایڑی پر کاٹ کر جزوی کامیابی حاصل کرے گا ۔ لیکن بچہ حتمی وار کریگا اور شیطان کا سر کچل ڈالے گا ۔ یہ حوالہ اس طرح سے ہے :
’’ اور خداوند خدا نے سانپ سے کہا اسلئے کہ تو نے یہ کیا تو سب چوپایوں او ردشتی جانوروں میں ملعون ٹھہرا۔ تواپنے پیٹ کے بل چلے گا اور اپنی عمر بھرخاک چاٹیگا ۔ اور میں تیرے اور عورت کے درمیان اورتیری نسل اور عورت کی نسل کے درمیان عداوت ڈالوں گا ۔ وہ تیرے سر کو کچلے گا اور تو اس کی ایڑی پرکاٹے گا ۔‘‘ عورت کی نسل کی ایڑی پر کاٹ کر شیطان کو تھوڑی دیر کیلئے کامیابی حاصل ہوگی ۔ اگر ہم پوری تاریخ پر غور کریں تو وہ کونسا شخص ہے جو کہ باپ او رماں سے نہیں بلکہ صرف مادر سری ہے؟ کیا مریم کابیٹا یسوع ٹھیک ہے ؟ شیطان عورت کی اس نسل کی ایڑی پر کاٹے گا ۔ لیکن یہ نسل شیطان کے سرکو کچلیگی ۔ اور سانپ کو مارنے کا واحد طریقہ اس کے سر کو کچلنا ہے ۔اس کا کیا مطلب ہے ؟ اس کی صرف ایک وضاحت پائی جاتی ہے ۔
جب صلیب پر یسوع کے ہاتھوں اور پاؤں میں کیل ٹھوکے گئے تو یہ شیطان کی طرف سے وار تھا ۔ لیکن یسوع نے بھی شیطان پر ایک جوابی حملہ کیا۔ یسوع صلیب کے اوپر شیطان پر غالب آیا ۔ یسوع نے انسانیت کے گناہوں کا فدیہ ادا کیا ، ہر کسی کو معافی دی اور خدا کے ساتھ رشتہ جوڑنے کا رستہ دکھایا۔ یسعیاہ نبی اس نسل کے متعلق یہ بیان کرتا ہے :
’’ نہ اس کی کوئی شکل و صورت ہے نہ خوبصورتی اور جب ہم اس پر نگاہ کریں تو کچھ حسن و جمال نہیں کہ ہم اس کے مشتاق ہوں ۔ وہ آدمیوں میں حقیر و مردور مرد غمناک اور رنج کا آشنا تھا ۔ لوگ اس سے گویا روپوش تھے اسکی تحقیر کی گئی اور ہم نے اس کی کچھ قدر نہ جانی ۔ تو بھی اس نے ہماری مشقتیں اٹھالیں اورہمارے غموں کو برداشت کیا ۔پر ہم نے اسے خداکا مارا کوٹا اور ستایا ہوا سمجھا ۔ حالانکہ وہ ہماری خطاؤں کے سبب سے گھائل کیاگیا اور ہماری بدکرداری کے باعث کچلا گیا۔ ہماری ہی سلامتی کے لئے اس پر سیاست ہوئی تاکہ اس کے مار کھانے سے ہم شفا پائیں۔ ہم سب بھیڑوں کی مانند بھٹک گئے ۔ ہم میں سے ہر ایک اپنی راہ کو پھرا پر خداوند نے ہم سب کی بدکرداری اس پر لادی ۔‘‘یسعیاہ نبی کس کے متعلق بات کررہا ہے؟ یہ بالکل واضح ہے ۔ وہ یسوع کی بات کر رہا ہے ۔ اور یہ کب ضبطِ تحریر کیا گیا ؟ یہ یسوع کی پیدائش سے 600سال پہلے لکھاگیا ۔ جیسا کہ ہم نے یسعیاہ میں پڑھا خدا نے ابتداء سے ہزاروں سال تک یہ بات کہی کہ یسوع آئے گا اوراپنی جان دیگا۔ اگر خدا آخری لمحہ پر اپنا منصوبہ تبدیل کر لیتا توآپ اس کے متعلق کیا سوچتے؟ اگر ہزاروں سال یسوع کے بارے میں وعدے کرنے کے بعد خدااپنے وعدے سے پھر جاتا اور یسوع ہماری خاطر جان نہ دیتا تو آپ اس کے متعلق کیا محسوس کرتے؟ خدااپنا ارادہ تبدیل نہیں کرتا ۔
خدا روُح ہے ۔ اور یسوع جسمانی نہیں بلکہ روحانی طور پر خدا کا بیٹا ہے ۔اگر کوئی کہتا ہے ’’ تم کدارز کے بیٹے ہو ۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ شخص لبنان سے تعلق رکھتاہے یا اگر مصر سے تعلق رکھتا ہے ۔
’’ تم دریائے نیل کے بیٹے ہو۔‘‘اسی طرح یسوع کو خداکا بیٹا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کا تعلق خدا سے ہے ۔ یہ ایک خطاب کی طرح ہے ۔ جب فرشتہ مریم پر ظاہر ہوا تو اس نے کہا ، ’’ وہ مولودِ مقدس خدا کا بیٹا کہلائے گا ۔‘‘ یہ ایک خطاب ہے ۔ مسیحی اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ خدا کا کسی عورت کے ساتھ جنسی تعلق تھا ۔یسعیاہ نے کہا ’’ اسلئے ہمارے لئے ایک لڑکا تولد ہوا اور ہم کو ایک بیٹا بخشا گیا اور سلطنت اس کے کندھے پر ہوگی اور اس کا نام عجیب مشیر خدایِ قادر ابدیت کا باپ سلامتی کا شاہزادہ ہوگا ۔‘‘ وہ خداہے جو مریم کے وسیلہ سے انسان بنا ۔ وہ بیک وقت خدا اور بیٹا ہے جو کنواری مریم سے پیدا ہوا ۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ خدا نے یسوع کو کنواری مریم سے پیدا ہونے کی اجازت دی؟
مرد اور عورت کے ملاپ سے پیدا نہ ہونا بلکہ صرف عورت سے پیدا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے آدم اور حوا کی گناہ آلودہ فطرت کو نہ اپنایا ۔ جب آدم اور حوا گناہ میں گرگئے توانہوں نے اپنے بچوں کے ذریعہ سے نسل در نسل گناہ آلودہ فطرت کو ہم تک منتقل کیا ۔ ہم سب گنہگار پیدا ہوتے ہیں ۔ ہم سب اس فطری رحجان سے پیدا ہوتے ہیں کہ ہر کام خدا کی مرضی سے نہیں بلکہ اپنی مرضی سے کریں۔ ہم سب گناہ میں گرتے ہیں اسی لئے داؤدنبی پکار کر کہتا ہے ’’ اور میں گناہ کی حالت میں ماں کے پیٹ میں پڑا۔‘‘ ہم سب گناہ کی حالت میں پیدا ہوئے۔ہم سب گناہ کی حالت میں رہتے ہیں اور ہمیں ایک چھڑانے والے کی ضرورت ہے ۔ لیکن ہمیں مخلصی دینے کیلئے یسوع کو ایک الگ فطرت اپنانے کی ضرورت تھی ۔ اسے خداکے رو ح اور روح القدس کی ضرورت تھی جو گناہ سے پاک ہیں ۔یسعیاہ نبی کہتا ہے کہ اس میں کوئی فریت نہ تھا ۔ اس میں کوئی گناہ نہ تھا ۔ ہم کلام میں پڑھتے ہیں کہ خدا نے جلتی جھاڑی میں خود کو موسیٰ پر ظاہر کیا ۔ جب اس نے ابرہام سے بات کی توآسمانی آوازکو استعمال کیا۔کون کہتا ہے کہ خدا خود کو ہم پرظاہر کرنے کیلئے انسانی روپ اختیار نہیں کر سکتاہے؟
خدا نے ابرہام کو کیسے آزمایا؟ اس نے ابرہام سے کہا کہ اپنے بیٹے کو مذبحہ پر ڈال دے ۔ جب وہ پہاڑ پر جارہے تھے تو بیٹے نے پوچھا کہ قربانی کا برّہ کہاں ہے ؟ ابرہام نے جواب دیا کہ خدا یہ کام کریگا ۔ وہ خود قربانی کے لئے برّہ مہیا کرے گا۔
اورپھر خدا نے ایک برّہ مہیا کیا ہے جسے ابرہام نے خدا کے لئے قربان کیا ۔ اس مستعد پیغام پر غور کیجئے جو خدا ہمیں دیتا ہے۔ خدا بچاتا ہے ، اس نے ایک برّہ دے کر ابرہام کے بیٹے کو بچالیا ۔ اس کے بعد ہم خروج میں بھی برّہ کی اہمیت پر غور کرتے ہیں ۔ خدا نے مصر میں اپنے لوگوں کو خبردار کیا کہ وہ مصریوں کو ہلاک کرنے والا ہے۔ اگرخدا پر ایمان رکھنے والے برے کا خون اپنی چوکھٹوں پر لگائیں گے تو موت کا فرشتہ اُن کو مارے بغیر وہاں سے گزر جائے گا ۔ ایک برّے کی مدد سے ایمانداروں کی ایک قوم ہلاک ہونے سے بچ گئی ۔ احبار میں ہم دوبارہ برّے کے بارے میں پڑھتے ہیں ۔کاہن کو یہ نصیحت کی جاتی ہے کہ ہر سال شہر میں سے ایک برّہ لائے او ر اسے خدا پرایمان رکھنے والوں کے گناہوں کیلئے قربان کرے۔ ہر سال ایک قوم برّہ کی مددسے بچ جاتی ۔پھریوحنا بپتسمہ دینے والا یسوع کی تعریف میں بیان کرتا ہے کہ دیکھو خدا کا برّہ جو جہان کا گناہ اٹھا لے جاتا ہے یعنی ایک برّہ پوری دُنیا میں ان سب لوگوں کو مخلصی دے گا جو اس پر ایمان لائیں گے ۔ اگر ابرہام خدا کی آواز کو نہ سنتا تو کیاہوتا ؟ یاوہ اسے خدا کی آواز نہ سمجھتا تو کیا ہوتا ؟بالکل ٹھیک ،تو اسکا بیٹا یقیناًمارا جاتا ۔ اگرلوگ خدا پر ایمان نہ رکھتے اور برّے کا خون اپنی چوکھٹوں پرنہ لگاتے تو کیا ہوتا؟
پس اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے ۔یسوع خدا کا برہ 2000سال پہلے صلیب پر چڑھا اوراس نے آپ کیلئے اپنی جان دی ۔ ہمیں واضح بیان کیا گیا ہے کہ خدااس طرح اپنی محبت ہم پرظاہر کرتاہے کہ جب ہم گنہگار ہی تھے تومسیح ہماری خاطر موا۔اگرآپ کہتے،’’نہیں ، انہوں نے اسے مصلوب نہ کیا ۔اسے موت نہ دی گئی ‘‘ تو کیاہوتا۔ خدا کا یہ برّہ نہ صرف آپ کیلئے بلکہ پوری دُنیا کے گناہوں کا فدیہ ادا کرنے کیلئے مصلوب ہوا ۔اگر آپ کہیں کہ خدا کا یہ برّہ مارا نہ گیا اوروہ میرے گناہوں اورمعافی کیلئے نہ موا تو کیا ہو گا؟
یہ ایک عظیم سوال ہے ۔ ایک مثال ہمیں اس کا جواب ڈھونڈنے میں مدد دے گی ۔
فرض کیجئے ہمارے پاس ایک گملا ہے ۔ اس میں کوئی پھول یاپانی موجود نہیں ۔یہ صرف ہوا سے بھرا ہوا ہے ۔ گملے کے اندر اور باہر کی ہوا میں کیا فرق ہے؟گملے کے اندر کی ہوا کی ایک جسامت ہے ۔ ٹھیک ہے ؟یہ ہوا ایک مرکب کی طرح ہے لیکن پھر بھی گملے کے اندرہوا کی جسامت ہے ۔اگر ہم اس گملے کو دیوار میں دے ماریں اوریہ ٹوٹ جائے تو اس میں موجود ہوا کہاں جائے گی ؟کیایہ مرجاتی ہے ؟ نہیں ، ہوا نہیں مرسکتی ۔ گملے کے ہزاروں ٹکڑے ہو سکتے ہیں لیکن ہواکو کچھ ضرر نہ پہنچے گا ۔ ماسوائے اس کی جسامت ضرور کھو جائے گی ۔
جب یسوع نے صلیب پرجان دی تواس کا جسم مر گیا لیکن اسکی روح یعنی خدا کی روح کبھی نہیں مرتی۔خدانے یسوع میں انسانی شکل اختیار کی ۔ اگرچہ اس نے انسانی شکل کو اپنا لیا لیکن یسوع صرف انسان نہ تھا۔یسوع نے صلیب پر ہمارے گناہ کا فدیہ دیا ۔ اور ہمارے اوراپنے درمیان رکاوٹوں کوختم کردیا۔ اس کی موت کے سبب سے ہم خدا سے صلح کر سکتے ہیں ۔ اگرچہ ہم گنہگار تھے ، یسوع خداکا برّہ جس نے ہماری خاطر دکھ اٹھایا اس نے خدا کے انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا ۔ یسوع نے اپنی مرضی سے اپنی جان کو ہمارے لے دے دیا اور اس میں خداکی محبت مکمل طورپر ہم پر ظاہر ہوئی ۔آپ شاید یہ کہیں کہ یہ انصاف نہیں ہے ۔ اورآپ بالکل ٹھیک کہتے ہیں ہم اس بات کے مستحق نہیں کہ یسوع ہمارے لئے مرے۔لیکن ہمارے لئے خدا کی طرف سے یہی حل تھا۔ کیاہم خدا کو بتاتے ہیں کہ یہ کیسے ہونا چاہئے ؟ یسوع نے ہماری موت کی سزا کی قیمت ادا کی تاکہ ہمیں اپنے گناہوں کی خاطر مرنے کی ضرورت نہ پڑے۔ وہ چاہتا ہے کہ ہم اس کے ساتھ رشتے میں پیوست ہوجائیں، اسکی محبت کو جانیں اور ابدی زندگی کے وارث بن جائیں ۔
ایک اورکہانی ۔یہ ایک سچی کہانی ہے تاکہ آپ اس بات کو سمجھیں کہ یسوع نے ہمارے لئے کیاکیا ۔
ایک دفعہ ایک ایماندار جج تھا جو رشوت نہیں لیتا تھا ۔وہ عادل تھا۔ ایماندار ۔ایک خاتون کو پکڑ کراس کے سامنے پیش کیا گیا۔اسے موت کی سزا ہو سکتی تھی یا اسے بھاری رقم کا جرمانہ ہو سکتا تھا جو کہ اس کے پاس نہ تھا۔
جج نے اس سے پوچھا ،’’ تم مجرم ہو یا نہیں؟‘‘اور وہ چلائی ،’’ محترم ! میں سزا نہیں جھیل سکتی ۔ میں رقم ادا نہیں کرسکتی ۔ مہربانی سے مجھ پر رحم کیجئے ۔‘‘ جج نے کہا ’’ میں تم سے پوچھتا ہوں کیاتم مجرم ہو یانہیں ؟ کیا تم اعتراف کرتی ہو ؟‘‘بالآخر اس نوجوان عورت نے کہا ،’’ جناب عالیٰ! ہاں ، میں گنہگار ہوں ۔‘‘اس نے کہا ، ’’پھر تمہیں اس کی قیمت ادا کرنی ہوگی ۔ سزائے موت یا پھر رقم کا جرمانہ ۔‘‘اور اس نے مقدمہ بند کر دیا ۔
اس عورت نے چلانا اور ماتم کرنا شروع کر دیا ؟ اور سپاہی اسے کمرہِ عدالت سے جیل میں گھسیٹ کر لے گئے ۔ جج نے اپنا چوغہ اتارا اور عدالت سے باہر چلاگیا ۔اور پھر وہ خزانے کی طرف گیا ۔ اور اس کے پاس جتنے بھی پیسے تھے اس نے خزانے میں جمع کروا کر اس لڑکی کا فدیہ ادا کیا ۔ کیوں؟ کیونکہ وہ اس لڑکی سے بے پناہ محبت کرتا تھا ۔ و ہ اس کی اپنی بیٹی تھی ۔ اور اس نے اپنا سب کچھ دے کر اس لڑکی کو خودہی چھڑا لیا ۔جب اس شخص نے اپنا جج کا چوغہ اتارا تووہ ایک عام شخص بن گیا ۔ یسوع نے بھی بالکل اسی طرح سے کیا۔ اس نے آسمان کو چھوڑا اپنے جلال کا چوغہ اتارا اور عام انسانوں کی مانند بن گیا۔ اور وہ ہماری خاطر مر گیا تاکہ ہمارے گناہ ہمیں سزا نہ دے سکیں اور ہمیں خدا سے دائمی طور پر جدا نہ کر سکیں ۔ سب نبیوں نے یہ پیشنگوئی کی کہ یسوع آئے گا اور جہان کے گناہوں کی خاطر اپنی جان دے گا ۔ حیاتِ ابدی حاصل کرنے کیلئے یسوع مسیح ہی انسانیت کی واحد امید ہے ۔ اگر ہم پھر ابتداء میں آدم اور حوا کی کہانی پر غور کریں تو خدا نے شیطان سے کہا کہ عورت کی نسل شیطان کے سرکو کچلے گی اور انسانیت چھٹکارا حاصل کرے گی ۔ یسوع کی موت اورپھر جی اٹھنا شیطان کی طاقت پر غالب آیا ۔ شیطان پر کچلنے والاوار کر کے یسوع گناہ ، موت اورخدا سے ہماری جدائی پر بھی غالب آیا۔
خدا صرف ایک ہے ۔ذیل میں وہ سب کچھ ہے جو ہم خدا کے متعلق سچ جانتے ہیں:
خدا ابدخدا ابدی ہے : وہ ہمیشہ سے موجود تھا ، موجودہے اور موجود رہے گا ۔
خداپاک ہے : اس میں کوئی عیب نہیں ۔وہ کامل ہے ۔
خدا سچائی ہے : اس کا کلام ہمیشہ قائم رہتا ہے ، لا تبدیل ہے ، سچا اور بھروسہ مندہے ۔
خدا موجود ہے: ہر جگہ اور ہر وقت۔
خداقادر ہے : اسکی قدرت کی انتہا نہیں۔
خدا سب کچھ جانتا ہے: اسے ہمیشہ سے ہر چیز کا کل علم ہے۔
خدا خالق ہے : کوئی ایسی چیز نہیں جو اس سے خلق نہیں ہوتی ۔
خداصرف ایک ہے ۔ اوپر اس کے متعلق بیان کردہ سب باتیں سچ ہیں ۔ ہم یہ جانتے ہیں کیونکہ کلام فرماتا ہے کہ خدا کے متعلق یہ سب باتیں سچ ہیں ۔ اس نے اپنے متعلق یہ سب کچھ انسانیت پرظاہر کرنے کا ارادہ کیا ہے ۔ کلام یہ انکشاف بھی کرتاہے کہ یسوع خدا جیسی خصوصیات کامالک ہے ۔جیسا کہ خدا کا روح بھی فرماتا ہے ۔ آئیے ابدیت کی مثال لیتے ہیں۔
کلام یسوع کے بارے میں بیان کرتاہے ’’ یہی ابتداء میں خداکے ساتھ تھا ۔ سب چیزیں اس کے وسیلہ سے پیدا ہوئیں اور جوکچھ پیدا ہوا ہے اس میں سے کوئی چیز بھی اس کے بغیر پیدا نہیں ہوئی ۔ ‘‘ اور یہ بھی لکھا ہے ’’ وہ اندیکھے خد ا کی صورت اور تمام مخلوقات سے پہلے مولودہے ۔ کیونکہ اسی میں سب چیزیں پیدا کی گئیں ۔آسمان کی ہوں یا زمین کی ۔دیکھی ہوں یا اندیکھی ۔ تخت ہوںیا ریاستیں یا حکومتیں یا اختیارات۔سب چیزیں اسی کے وسیلہ سے اور اسی کے واسطے پیدا ہوئی ہیں ۔‘‘ اگر خدا صرف ایک ہے تو پھر یسوع کیسے خدا ہو سکتا ہے ؟
زمین پر ہم تین رخی دُنیا میں رہتے ہیں۔ہر شخص لمبائی ، چوڑائی اور گہرائی رکھتا ہے۔دو لوگوں میں شاید کوئی چیز مشترک ہو۔شاید ان کے رحجانات اور پیشے ایک جیسے ہوں۔ لیکن درحقیقت ایک شخص کسی دوسرے کی مانند نہیں ہو سکتا ۔وہ دوانفرادی شخصیات ہیں ۔ تاہم خدا اس تین رخی کائنات کی بندشوں سے پرے رہتا ہے ۔ وہ روح ہے اور پھر ہم سے لاانتہا پیچیدہ ہے ۔ اسی لئے یسوع یعنی بیٹا باپ سے مختلف ہوسکتا ہے اور پھر بھی وہ اس جیسا ہے ۔ بائبل واضح طور پر سے یہ بیان کرتی ہے :خدابیٹا ، خدا باپ اور خدائے رو ح القدس ۔ بائبل یہ بھی واضح کر دیتی ہے کہ خدا صرف ایک ہے ۔ اگرہم تینوں کو جمع کریں تو اس کا جواب یہ نہ ہوگا 1+1+1=3۔بلکہ اس کا درست جواب یہ ہوگا 1x1x1=1
جیسا یسعیاہ نبی فرماتا ہے ’’ اسلئے خدا خودتمہیں ایک نشان بخشے گا ۔ دیکھو ایک کنواری حاملہ ہوگی اور بیٹا جنیگی اور اس کا نام عمانوایل رکھیں گے ۔‘‘عمانوایل کا لفظی ترجمہ یہ ہے ’’ خدا ہمارے ساتھ ‘‘یسوع نے کہا اسے جاننے کا مطلب خدا کو جاننا ہے ۔ اسے دیکھنے کا مطلب خداکو دیکھناہے ۔ اس پر یقین رکھنے کا مطلب ہے خدا پر یقین رکھنا۔ یسوع کے متعلق مزید جاننا اور یہ سیکھنا کہ کیسے اس نے ان بیانات کوثابت کیا، مہربانی سے دیکھئے مضمون ’’اندھے اعتقاد سے پرے ‘‘
باوجود اس کے خدا کے متعلق کچھ اور بھی ہے جو ہمیں جاننا چاہئے ۔ و ہ آپ سے محبت کرتا ہے اور آپ کو سنبھالتا ہے ۔ یسوع ہم سے کہتا ہے ،’’ جیسے باپ نے مجھ سے محبت رکھی ویسے ہی میں تم سے محبت رکھی ۔ تم میری محبت میں قائم رہو ۔اگر تم میرے حکموں پر عمل کرو گے تو میری محبت میں قائم رہو گے جیسے میں نے اپنے باپ کے حکموں پر عمل کیاہے اور اس کی محبت میں قائم ہوں۔ میں نے یہ باتیں اسلئے تم سے کہی ہیں کہ میری خوشی تم میں ہو اور تمہاری خوشی پوری ہو جائے۔‘‘
یسوع ہمیں اپنے پاس بلاتاہے ۔ ’’ اے محنت اٹھانے والواوربوجھ سے دبے ہوئے لوگو سب میرے پاس آؤ ۔ میں تم کو آرام دوں گا۔ میرا جو ااپنے اوپر اُٹھا لواور مجھ سے سیکھو ۔ کیونکہ میں حلیم ہوں اور دل کا فروتن ۔ تو تمہاری جانیں آرام پائیں گی ۔ کیونکہ میرا جوا ملائم ہے اور میرا بوجھ ہلکا۔‘‘خدا کے لئے کافی کچھ کرنے کی ہماری ساری جدوجہد میں یسوع مسیح ہمیں آزادی نو بخشتا ہے ۔ ہم اس کی محبت کا تجربہ کرتے ہیں اور اس سے خداکو خوش کرنے کی نئی تحریک حاصل کرتے ہیں۔ یہ تحریک خوف سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ اس کو جاننے کی خوشی سے۔ یسوع کے شاگردوں میں سے ایک پولس نے اس کا تجربہ کیا اوراس کی وضاحت پیش کی ’’کیونکہ مجھ کو یقین ہے کہ خداکی جومحبت ہمارے خداوند مسیح یسوع میں ہے اس سے ہم کو نہ موت جدا کر سکے گی نہ زندگی ، نہ فرشتے نہ حکومتیں نہ حال کی نہ استقبال کی چیزیں ۔ نہ قدرت نہ بلندی نہ پستی نہ کوئی اور مخلوق ۔‘‘اگرآپ یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ یسوع آپ کو کیادے رہا ہے تو مہربانی سے دیکھئے مضمون ’’ اندھے اعتقاد سے پرے ‘‘۔
◄ | خُدا کو کیسے جانیں ۔۔۔ |
◄ | اگر آپ کوئی سوال پوچھنا یا اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہتے ہیں تو یہاں کلک کریں۔ |