(از: برینڈن مارکیٹ)
پوری انسانی تاریخ اور کُل کائنات میں اگر کوئی ناگوار تجربہ ہر ذی روُح کو ایک سوچ پر متفق کرتا ہے تو وہ ہے موت ۔ واحد موت ایسی چیز ہے جس کا ہر شخص کو سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ دُنیا میں ابھی تک کوئی ایسی ورزش، غذا ، دوا یا مال و دولت پیدا نہیں ہوئی جو ہمیں موت سے بچا سکے ۔ موت بہترین ادائیگی ہے ۔ اگر موت کے ساتھ ساتھ ہمیں ابدی زندگی کے متعلق بھی شک و شبہات ہوں تو بہت سے لوگوں کیلئے خوف پیدا ہو جاتا ہے۔ ہم جتنا زیادہ بڑھتی ہوئی عمر کے سیلاب کو روکنا چاہیں یہ اتنا ہی زیادہ ہماری زندگی میں بڑھتا جاتا ہے ۔ ہمارے ذہن میں ہر وقت یہ اُمید رہتی ہے کہ شاید کوئی دوا ، سرجری یا انسانی جینز میں کوئی نئی دریافت ہماری زندگی کی معیاد کو بڑھانے میں اہم ثابت ہوگی۔
تاہم ہرشخص موت کو غیر یقینی اور خوف کی حالت میں قبول نہیں کرتا ۔ چند سال پہلے میرے دوست نے اس نظر نہ آنے والے دشمن کا سامنا کیا ۔سولہ سال کی عمر میں اُس کے معدے میں سرطان کی تشخیص کی گئی ۔ ڈاکٹروں نے اُس کا علاج کرنے کی مقدور بھر کوشش کی لیکن کوئی افاقہ نہ ہوا ۔ ڈیڑھ سال تک ’’راب‘‘ دو مختلف شہروں کے تین ہسپتالوں میں زیرِ علاج رہا۔ اسی دوران اس کے سر کے بال گر گئے اور اُس کا 90پاؤنڈ وزن کم ہوگیا ۔اسے کبھی ہسپتال کے اندر اور کبھی باہر رکھا گیا۔ لیکن جب اٹھار ہ ماہ گزر گئے تواُس کیلئے کوئی امید باقی نہ رہی۔
جب ڈاکٹر ہر ممکن کوشش کر چکے تو ان کے لئے ایک ہی راستہ باقی بچا۔ انہوں نے اُسے یہ مشورہ دیا کہ وہ گھر جائے اور اپنی باقی زندگی سے لطف اندوز ہو ۔ اُس کی زندگی کی اس نہج پرمیں بہت ہی اداس اورغمگین تھا۔ ایک بہترین دوست کو کھو دینے کے ڈر سے میں خدا سے ناراض بھی تھا ۔ کیونکہ اُس نے میرے دوست کو شفا نہ دی ۔میَں اِس بات پر بھی واویلا کرتارہا کہ میں راب کو بہت سی باتوں میں یاد کروں گا۔
حیرت انگیز طور پر راب میری طرح غصہ یا نا اُمیدی کے عالم میں نہ تھا۔ دراصل وہ اس خوفناک قسمت کا ایسے سامنا کر رہا تھا جیسے ایک محبوب کا دل پہلی بار اپنی محبوبہ سے ملنے پر کشمکش میں ہوتا ہے۔ جس متانت سے اُس نے اس طوفان کاسامنا کیا وہ منظر یاد کر کے آج بھی میں سکتہ میں آجاتا ہوں ۔اُس کا اطمینان زندگی کے آگے ہتھیار ڈالنے سے پیدا نہیں ہوا تھا ۔ اور نہ ہی وہ اس رویے سے پیدا ہوا تھا کہ ہمیں موت کی کچھ پروا ہ نہیں ۔ یہ تو راب کے اس فیصلے کا نتیجہ تھاجو اس نے اپنی بیماری کی تشخیص سے چند ماہ پہلے کیا ۔ اس فیصلے کی بدولت راب نے خدا کے اطمینان کو پا لیا ۔
راب کو یہ اطمینان کلامِ مقدس میں سے ملا ۔اُس نے رومیوں کے خط میں پڑھا : ’’ سب نے گناہ کیااور خدا کے جلال سے محروم ہیں ‘‘ (رومیوں 23:3)۔ اس نے یہ بھی پڑھا ’’ کیونکہ گناہ کی مزدوری موت ہے مگرخدا کی بخشش ہمارے خداوند مسیح یسوع میں ہمیشہ کی زندگی ہے ‘7 ‘7 (رومیوں 23:6)۔یسوع وہ ہے جس کا ذکر یسعیاہ نے یہ لکھ کر کیا: ’’ اُس کانام عجیب مشیر خدایِ قادر ابدیت کا باپ سلامتی کا شہزادہ ہوگا‘‘ (یسعیاہ 6:9)۔ سلامتی کا شہزادہ اس لئے دُنیا میں آیا کہ ہر شخص خدا کے اطمینان کو حاصل کر سکے۔ راب نے خداوند یسوع مسیح پر ایمان رکھنے کا فیصلہ کیا اور یہ اطمینان اُسکی زندگی سے ظاہر ہو گیا۔
راب کی طرح ہم سب کو بھی توبہ کا فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ آج ہمیں یہ فیصلہ کرناچاہئے اگر ہم خدا سے ابدی زندگی کے تحفہ کو حاصل کرناچاہتے ہیں ۔ اگر ہم خدا کے اس تحفہ کو قبول نہیں کرتے تو ابدی ہلاکت کا شکار ہو جاتے ہیں جو کہ خدا سے ابدی جدائی بھی ہے ۔ اگرہم اس تحفہ کو قبول کر لیتے ہیں تو ابدی زندگی کے وارث بن جاتے ہیں ۔ ابدی زندگی حاصل کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم جسمانی موت کا مزہ نہ چکھیں گے ۔ ہمیں جسمانی موت کو خوشی سے قبول کرلینا چاہئے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ عارضی موت ہمیں آسمانوں کی جانب ابدی زندگی کی راہ پر گامزن کردے گی ۔ یہ وہ سچائی ہے جسے راب نے دریافت کیا ۔جب اس کا رشتہ خداکے ساتھ جڑ گیا تو اس کی زندگی ہی بدل گئی۔ اس سچائی کو میَں نے بھی پا لیا ہے اور یہ رشتہ میری زندگی کوبھی ہر روز تبدیل کر رہا ہے ۔
آج اگر آپ بھی موت کا سامنا کر رہے ہیں اور آخرت کی زندگی کے متعلق پریشان ہیں یا آپ زندگی میں مشکلات کا شکار ہیں۔میرے عزیزو میںآپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ کے لئے ایک امید اوراطمینان باقی ہے ۔
مزید مطالعہ کیلئے دیکھئے ’’خُدا کو شخصی طور پر جاننا‘‘۔
◄ | خُدا کو کیسے جانیں ۔۔۔ |
◄ | اگر آپ کوئی سوال پوچھنا یا اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہتے ہیں تو یہاں کلک کریں۔ |