از۔ پال ۔ ای ۔ لٹِل
انسان خدا کے وجود کو حتمی طور پر بیان نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ خود اپنے آپ کو ظاہر نہ کرے ۔ اس حقیقت کو جاننے کےلئے ہم تاریخ کے دریچوں میں جھانکتے ہیں شاید ہمیں کوئی سراغ مل جائے۔درحقیقت یہ ایک ایسا سراغ ہے جس سے ہم خُدا کے وجود کو جان سکتے ہیں ۔ دوہزار سال قبل فلسطین کے ایک چھوٹے سے گائوں میں ایک بچہ (یسوع) اصطبل میں پیدا ہوا ۔ اس کی شہرت کا یہ عالم ہے کہ آج بھی پوری دُنیا اس کی سالگرہ کو دھوم دھام سے مناتی ہے ۔
یہ بچہ تیس سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے گمنام تھا ۔ لیکن جب اس نے اپنی تین سالہ منادی کا آغاز کیا تو دیکھتے ہی دیکھتے اس نے دُنیا کی تاریخ بدل دی ۔ وہ بہت مہربان اور رحمدل شخص تھا ۔بائبل ہمیں بتاتی ہے کہ عام لوگ بھی اس کی باتوں کو بڑی خوشی سے سنتے اور قبول کرتے تھے ۔وہ اس وقت کے یہودی عالموں کی طرح نہیں بلکہ پورے اختیار سے لوگوں کو سکھاتا تھا ۔
اس وقت واضح ہوگئی جب اس نے اپنے متعلق حیران کن بیان دینا شروع کیے ۔ اس نے اس بات کو ثابت کر دیا کہ وہ صرف ایک استاد اور نبی سے کہیں بڑھ کر ہے ۔ اس نے یہ صاف صاف کہنا شروع کر دیا کہ وہ خدا ہے ۔ اس نے اپنی شناخت کو اپنی تعلیم کا محور بنایا ۔ وہ اپنے پیروکاروں سے اکثر یہ سوال پوچھتا کہ تم مجھے کیا کہتے ہو؟ جب اس کے شاگرد پطرس نے جواب دیا کہ ’’تو زندہ خدا کا بیٹامسیح ہے ‘‘تو اس کو اس بات سے کوئی حیرانی نہ ہوئی ۔ یسوع نے خود کو خدا کہنے پر پطرس کو نہ جھڑکا بلکہ اس نے اس کی تعریف کی ۔ اس نے واضح طور پراس بات کا دعویٰ کیا اور سننے والوں پر اس کے کلام کا گہرا اثر ہوا ۔ ہم بائبل مقدس میں سے اس بات کو سیکھتے ہیں کہ یہودی اسے قتل کرنا چاہتے تھے ۔اس جرم پرنہیں کہ اس نے سبت کی بے حرمتی کی تھی بلکہ اس نے خود کو خدا کا بیٹا بنا کر اس کے برابر ہونے کا دعویٰ کیا تھا ۔ اس نے تو ایک موقع پر یہ بھی کہا کہ خدااور میَں ایک ہیں ۔ یہودیوں نے فوراً اسے سنگسار کرنا چاہا ۔ اس نے ان سے پوچھا کہ وہ کس نیک کام پر اسے سنگسار کرتے ہیں ۔ یہودیوں نے جواب دیا کہ تو انسان ہوتے ہوئے خدا ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اسلئے تجھے سنگسار کرتے ہیں ۔
ایک واقعہ سے ہم ایک مفلوج کے متعلق سیکھتے ہیں ۔ یسوع کے گرد بہت زیادہ بھیڑ ہونے کی وجہ سے جب اس مفلوج کو اس کے پاس نہ لاسکے تو چھت کو ادھیڑ کر اس کی چارپائی کو نیچے لٹکا دیا گیا ۔ یسوع نے کہا ’’بیٹا تمہارے گناہ معاف ہوئے ۔‘‘اس بات پر یہودی مذہبی رہنمائوں میں کھلبلی مچ گئی ۔ وہ یسوع کے ان الفاظ پر سراپا احتجاج تھے ۔ انہوں نے کہا کہ خدا کے علاوہ کوئی شخص گناہ معاف نہیں کر سکتا ۔ یہ شخص تو کفر بکتا ہے ۔
اسی طرح ایک اور واقعہ میں یسوع کی عدالت کرنے کےلئے اسے سردار کاہن کے پاس لے گئے ۔ سردار کاہن نے اس سے پوچھا کہ کیا تو خدا کابیٹا مسیح ہے ۔یسوع نے جواب دیا کہ میَں ہوں ۔ اور مزید اس نے کہا کہ تم لوگ ابن آدم کو خدا کے دہنے ہاتھ بیٹھے اور بادلوں پر آتے ہوئے دیکھو گے ۔ اس دعوےٰ پر سردار کاہن نے اپنے کپڑے پھاڑ دئیے اور یہ فیصلہ کیا کہ اب ہمیں کسی گواہی کی ضرورت نہیں ۔اس نے خود کفر کہا ہے ۔
ان واقعات کی مد د سے ہم اس بات کو آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ یسوع مسیح خداکابیٹا ہے ۔ اور اسے جاننا دراصل خدا کو جاننا ہے ۔ اسے دیکھنا خدا کو دیکھنا ہے۔اور اس پر ایمان لانے کا مطلب ہے خدا پر ایمان لانا ۔ اسے قبول کرنے کا مطلب ہے خدا کو قبول کرنا ۔ اور اس سے نفرت یا محبت کرنے کا مطلب ہے خداسے نفرت یا محبت کرنا ۔
جب یسوع مسیح خدا ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو اس دعویٰ میں درج ذیل چار باتیں پائی جاتی ہیں :
-1 پہلی بات یہ ہے کہ یسوع مسیح ایک جھوٹا شخص تھا اسلئے اس نے اتنا بڑا دعویٰ کیا ۔ یہ ممکن ہے کہ اس نے اپنی تعلیم کو سچ ثابت کرنے کےلئے اور اپنے اختیار کو بڑھانے کےلئے خدا ہونے کا دعویٰ کیا ہو ۔ لیکن تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اس کی شدید مخالفت کرنے والے اوراس کی الوہیت کو رد کرنے والے بھی اسے ایک عظیم اخلاقی استاد کہتے تھے ۔ انہوں نے کبھی اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ یسوع مسیح ایک جھوٹا شخص تھا ۔ اس بات کومدنظر رکھتے ہوئے میرا یہ خیال ہے کہ اگر یسوع مسیح خود کو ظاہر کرتے وقت جھوٹ بولتا تو کبھی بھی ایک عظیم روحانی استاد نہ بنتا ۔
-2 دوسری ممکنہ بات یہ ہو سکتی ہے کہ وہ ایک ذہنی طور پر معزور شخص تھا ۔ وہ ایک ایسا شخص تھا جو خودکو ہی دھوکا دے رہا تھا۔یہ بات بالکل سچ سمجھی جاتی اگر وہ لوگوں کو دھوکا دیتا۔ اس کے برعکس اگر ہم اس کی پوری زندگی پر غور کریں تو کوئی بھی ایسا واقعہ سامنے نہیں آتا جس میں اس نے ذہنی تنائو ، گھبراہٹ ، ذہنی عدم توازن یا طیش کا مظاہرہ کیا ہو ۔ علاوہ ازیں ہم تو یہ بات دیکھتے ہیں کہ اس کی زندگی میں ٹھہرائو ، اطمینان اور سنجیدگی حد سے زیادہ تھی ۔
-3 تیسری بات یہ ہے کہ یسوع مسیح کا خدا ہونے کا دعویٰ ایک من گھڑت کہانی ہے ۔ اس نظریہ میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ شاید اس کے شاگردوں نے یہ قصہ اسے مشہور کرنے کےلئے اور اپنی پہچان بنانے کےلئے لکھا ہو ۔ اگر یسوع مسیح کے دور میں اسکے شاگرد ایسا کرنے کی کوشش کرتے تووہ انہیں رد کر دیتا ۔
اس نظریے کو جدید آثارِ قدیمہ کی دریافتوں نے سرے سے رد کر دیا ہے ۔مصدقہ دریافتوں سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ یسوع مسیح کی چار سوانح عمری اس کے ہم عصروں نے اپنے اپنے دور حیات میں لکھیں ۔ مشہور ماہر آثارِ قدیمہ ڈاکٹر ولیم ایف ۔ آلبرآئیٹ جوکہ جانز ہوپکنز یونیورسٹی کے سابقہ پروفیسر تھے ۔ انہوں نے تجربے اور تحقیق کی روشنی میں یہ بات پیش کی ہے کہ چاروں اناجیل 70ئ سے قبل ضبط تحریر میں آئیں ۔لیکن اگر یہ صرف ایک من گھڑت کہانی ہے اور یہ ایک شہرہ آفاق کہانی بن گئی ہے اور اس کے مداح دُنیا بھر میں ہیں تو پھر یہ ایک حیرت انگیز شاہکار ہے ۔
لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے کیونکہ دُنیا میں کوئی بھی لوک داستان یا من گھڑت کہانی نے اس طورسے شہرہ آفاق حیثیت حاصل نہیں کی ۔ مثال کے طور پر ہم جان ایف کینیڈی کی سوانح عمری تحریر کرتے ہیں ۔ ہم اس کے اوصاف میں یہ بیان کرتے ہیں کہ اس نے بڑے معجزات کیے ، لوگوں کے گناہوں کو معاف کیا ، خدا ہونے کادعویٰ کیا اور مُردوں میں سے جی ا ٹھا ۔ اس طرح کی کہانی تو حیرت انگیز اور ناقابل یقین ہے ۔ بہت سے لوگ جو جان ۔ ایف ۔ کینیڈی کو جانتے ہیں اس کہانی کی مخالفت کریں گے ۔ اس بات سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ یسوع مسیح کے متعلق بھی اس طرح کی کوئی کہانی بیان کرنا ناممکن ہے ۔ کیونکہ جب یہ کہانی لکھی گئی اس وقت بہت سے لوگ یسوع مسیح کی زندگی سے واقف ہوں گے ۔
-4 ہمارے پاس آخری ممکنہ جواب یہ ہے کہ یسوع مسیح ایک سچائی ہے اور اس نے ہمیشہ اپنی زمینی زندگی میں سچ ہی بولا ۔ محض یہ الفاظ کہہ دینا کہ میَں خدا ہوں یا میَں خدا کے برابر ہوں بہت آسان ہے ۔ لیکن ہمارے لئے اس بات کو ثابت کرنا ناممکن ہے ۔ اگر میَں یہ دعویٰ کروں کہ میَں خدا ہوں تو کوئی بھی عالم یا جاہل چند لمحوں میں میرے اس دعوے کو غلط ثابت کر دے گا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھ میں خدا بننے کے اوصاف موجود نہیں ۔اس کے برعکس ہم یسوع مسیح ناصری کے خدا ہونے کے دعوے کو باآسانی رد نہیں کر سکتے ۔ کیونکہ اس کے پاس اپنے دعوے کو سچ ثابت کرنے کےلئے اوصاف موجود ہیں ۔ خداوند یسوع مسیح کہتا ہے کہ تم اگر مجھ پر ایمان نہیں لاتے تو ان معجزات پر ہی ایمان لے آئو جو میرے وسیلہ سے واقع ہوتے ہیں ۔اس طرح سے تم جان لو گے کہ باپ مجھ میں ہے اور میَں باپ میں ۔
یسوع مسیح کے دعووں کواس کے اعلیٰ اخلاقی کردار کی مدد حاصل تھی ۔ بہت سے لوگوں نے خدا ہونے کا دعویٰ کیا لیکن ان کا کردار ان کے دعووں کے منافی تھا ۔لیکن خداوند یسوع مسیح کا کردار اس کے دعووں کا ثبوت ہے ۔
اس کے کردار کا عالم یہ تھا کہ وہ بے گناہ تھا ۔ حتیٰ کہ اس نے اپنے دشمنوں کو بھی یہ چیلنج دیا کہ وہ اسے گنہگار ثابت کر کے دکھائیں ۔ لیکن اس کا کوئی دشمن اس کے اندر گناہ کو ثابت نہ کر سکا ۔ ہمیں خداوند یسوع مسیح آزمائشوں میں پڑا ہوا تو نظر آتا ہے لیکن اس نے کبھی اپنے گناہوں کا اقرار نہ کیا اور نہ ہی اس نے کبھی خدا سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کی ۔ لیکن اس نے اپنے شاگردوں سے ضرور کہا کہ وہ اپنے گناہوں کا اقرار کریں اور خدا سے معافی مانگیں ۔
خداوند یسوع مسیح میں اخلاقی بد حالی کا نہ پایا جانا حیران کن ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں تاریخ کے ہر دور میں آنے والا نبی یا پیغمبر اپنے گناہوں کا اقرار کرتے اور معافی مانگتے ہوئے دکھائی دیتا ہے ۔ نبی اور پیغمبر جتنا زیادہ خدا کی قربت میں گئے ان کی زندگی میں اتنی ہی بد اخلاقی سامنے آئی ۔ کیونکہ ہم جتنا زیادہ نور کے قریب جاتے ہیں ہماری گناہ آلودہ زندگی کی تصویر اتنی ہی واضح ہو جاتی ہے ۔ تہذیب یافتہ معاشرہ میں عام انسانوں کے ساتھ بھی ایسی صورتحال پیش آتی ہے۔ یہ فکر انگیز بات ہے کہ پولس ، پطرس اور یوحنا جنہیں بچپن سے یہ بات سکھائی گئی کہ گناہ انسان کی سرشت میں شامل ہے وہ بھی یسوع مسیح کے گناہوں سے پاک ہونے کی گواہی دیتے ہیں ۔ پلاطس جو کہ نہ تو یسوع کا شاگرد اور نہ ہی کوئی دوست تھا وہ بھی صریحاً یہ بات کہتا ہے کہ مجھے یسوع میں کوئی گناہ نظر نہیں آتا یعنی اگر اس بات کو واضح کیا جائے تو پلاطس بھی خداوند یسوع مسیح کو گناہوں سے پاک قرار دیتا ہے ۔ اور پھر جس رومی صوبہ دار نے یسوع مسیح کو مصلوب ہوتے ہوئے دیکھا اس نے بھی کہا کہ یقینا یہ شخص خداکابیٹا تھا ۔
بے شک خداوند یسوع مسیح کو فطرت پر پورا پورا اختیار حاصل تھا جس کی وجہ سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ خدا تھا ۔ اس کاثبوت یہ ہے کہ اس نے گلیل کے سمندر میں بپھری موجوں ، تند ہوائوں اور طوفانوں کو خاموش کر دیا ۔ اس قدرت کا نظارہ دیکھ کر اس کے شاگرد جو ابھی تک سوچ میں گم تھے یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ یہ کیسا شخص ہے کہ ہوائیں اور طوفان بھی اس کی بات مانتے ہیں ۔ اس نے تو اس سے بھی بڑے بڑے اور ناقابل دید معجزے کیے جن سے ہم اس کے اختیار کے لا انتہائ ہونے کا اندازہ لگاسکتے ہیں مثلاً اس نے پانی کومے بنا دیا ۔ صرف دو مچھلیوں اور پانچ روٹیوں سے پانچ ہزار سے زائد لوگوں کے پیٹ بھرے ۔ ایک دکھوں کی ماری بیوہ کے بیٹے اور غمزدہ والدین کی بیٹی کو مردوں میں سے جلایا ۔ اس نے ایک پرانے دوست کو آواز دی کہ اے لعزر باہر آتو وہ فوراً مردوں میں سے جی اٹھا ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اس کے دشمن اس کے معجزات کو دیکھ کر اس پر ایمان نہ لائے بلکہ اس کو قتل کرنے کی کوشش کی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر وہ اس طرح معجزے دکھاتا رہا تو سب لوگ اس پر یقین لے آئیں گے ۔
یسوع مسیح نے بیماروں پر بھی اپنی الٰہی قدرت کو ظاہر کیا ۔ اس نے اندھوں کو بینائی ، گونگوں کو گویائی اور لنگڑوں کو چلنا سکھایا۔ یسوع مسیح سے شفا پانے والے کچھ روگی ایسے بھی تھے جو پیدائشی طور پر بیماریوں کا شکار تھے ۔ سب سے ناقابل بیان معجزہ اس وقت ہوا جب اس نے ایک جنم کے اندھے کو آنکھیں دیں جس کا ذکر یوحنا نویں باب میں ملتا ہے ۔ یہ اندھاشخص جو اب بینا ہو چکا تھا سوال کرنے والوں کو قائل تو نہ کرسکا مگر اس نے کہا میں صرف یہ جانتا ہوں کہ پہلے اندھا تھا اب بینا ہوں ۔ وہ حیران تھا کہ اس کے دوستوں نے اس شافی کو خدا کا بیٹا نہ جانا ۔ لیکن اس نے تو یسوع مسیح کو خدا مان لیا تھا کیونکہ بقول اس کے کبھی کسی نے ایک جنم کے اندھے کو آنکھیں نہ دی تھیں ۔
یسوع مسیح نے یہ دعویٰ کیا وہ خدا ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت اس نے مردوں میں سے زندہ ہو کر دیا ۔ اس نے اپنی زندگی میں پانچ مرتبہ اپنی موت کی پیشنگوئی کی ۔ اس نے یہ بھی پیشنگوئی کی کہ وہ تین دن کے بعد مردوں میں سے جی اٹھے گا اور اپنے شاگردوں پر ظاہر ہوگا ۔یقینا یہ ایک بہت بڑا دعویٰ تھا ۔اس کو پورا کرنا ناممکن تھا ۔ اپنے شاگردوں کی توقعات کے برعکس یسوع نے اسے ثابت کردکھایا۔
مسیحی ایمان کے حامی اور مخالفین یسوع مسیح کے مردوں میں سے جی اٹھنے کو مسیحی ایمان کی بنیاد قرار دیتے ہیں ۔ ایک عظیم رسول پولس بیان کرتے ہیں کہ اگر یسوع مسیح جی نہیں اٹھا تو ہمارا مناد ی کرنا اور ہمارا ایمان دونوں بے فائدہ ہیں ۔ پولس رسول کی تعلیم کا محور یسوع مسیح کا مردوں میں سے جی اٹھنا تھا ۔ یا تو وہ مُردوں میں سے جی اُٹھا ہے یا نہیں اور اگر مسیح جی اٹھا ہے تو یہ بات واضح ہے کہ خدا موجود ہے اوریہ تاریخ کا عظیم ترین واقعہ ہے۔ اس سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ اس پوری کائنات کا ایک مقصد ہے جو ہم صرف خدا کو پہچان کر ہی ایمان لا سکتے ہیں ۔
اس کے برعکس اگر مسیح مردوں میں سے جی نہیں اٹھا تو مسیحیت محض میوزیم میں رکھی آثارِ قدیمہ کی ایک تصویر ہے ۔ اس کا کوئی مقصد اور فائد ہ نہیں ۔ یہ تصویر دیکھنے میں تونہایت خوبصورت ہے لیکن دورِ حاضر میں اس کا کوئی استعمال یا فائدہ نہیں ۔ جتنے مشنریوں اور رسولوں نے انتھک محنت اور جدوجہد سے اس کی بنیاد رکھی وہ بے کار ہے ۔ ان بزرگ رسولوں کا شہید ہونا بے کار تھا ۔
جیسا کہ یہ بات مستند اور تسلیم شدہ ہے کہ یسوع کا مردوں میں سے جی اٹھنا مسیحیت کی بنیاد ہے ۔ اسلئے مخالفین بھی اس واقعہ کو حملے کاہدف بناتے ہیں ۔ اسی طرح کا ایک حملہ برطانیہ کے ایک نوجوان وکیل فرینگ مورلین نے مسیحیت پر 1930ئ میں کیا ۔ اس نے یہ موقف اختیار کیا کہ یسوع مسیح کا مردوں میں سے جی اُٹھنا محض ایک فرضی کہانی ہے ۔ اس نے یہ محسوس کیا کہ یہ واقعہ مسیحیت کی بنیاد ہے ۔ اور وہ واقعہ کو محض فرضی ، من گھڑت اور غلط ثابت کر کے مسیحیت کو ایک جھوٹا مذہب قرار دے گا ۔ یہ کام اتنا آسان نہ تھا ۔ وہ اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لئے کوئی ثبوت پیش نہ کر سکا ۔ تاہم جب وہ اپنے موقف کو سچ ثابت کرنے کےلئے مسیحیت پر تحقیق کر رہا تھا تو ایک عجیب واقعہ پیش آیا ۔ اسے اس نے اپنی کتاب ’’کس نے پتھر کو لڑھکایا؟‘‘کے پہلے سبق میں لکھا جس کا عنوان ہے ’’وہ کتاب جسے لکھنا نہیں چاہئے تھا ۔‘‘اس سبق میں اس نے بیان کیا کہ کیسے اس نے اپنی مرضی کے خلاف یسوع مسیح کی مصلوبیت اورمردوں میں سے جی اٹھنے کو رد کرنے کا منصوبہ بنایا ۔
یسوع مسیح کو عوام کے سامنے مصلوب کر کے موت دے دی گئی ۔ اس دور کی حکومت کی طرف سے یسوع کو مصلوبیت مذہب کے خلاف کفر کہنے پر دی گئی ۔ یسوع نے کہا کہ اس نے ہمارے گناہوں کا فدیہ دیا ۔اس نے ہماری خاطر کوڑے کھائے ،ہاتھوں اور پائوں میں کیل ٹھکوائے اور اس کی پسلی میں نیزہ مارا گیااور جب خداوند یسوع صلیب پر مر گیا تو اسے نیچے اتار کر کفن پہنایا گیا۔ اسے ایک قبر میں رکھ دیا گیا ۔ یسوع نے اپنی زندگی میں کہا تھا کہ وہ مُردوں میں سے جی اُٹھے گا۔ اس بات کے ڈر سے اس کی قبر پر رومی سپاہیوں کا سخت پہرہ بٹھایا گیا ۔ ایک بہت بڑا پتھر جو کہ تقریباً 2ٹن کے قریب تھا لڑھکا کر اس قبر کے دھانے پر رکھ دیا گیا۔ رومی گورنمنٹ نے اس پتھر پر اپنی سرکاری مہر لگا کر اسے سرکاری پراپرٹی قرار دے دیا تاکہ کوئی اس جگہ میں داخل ہونے نہ پائے۔
قبر میں تین دن گزر جانے کے بعد یسوع مسیح تمام مہروں کو کھول کر جی اٹھا ۔اس نے اس بات کو ثابت کر دیا کہ وہ ہی زندہ خدا ہے اور اسے زندگی اور موت پر اختیار حاصل ہے ۔
جب یسوع مسیح کے مخالفین اس واقعہ کو بیان کرتے ہیں تووہ یہ بات ظاہر کرتے ہیں کہ یسوع مسیح کے بدن کو اس کے شاگرد چرالے گئے ۔ ہم اس واقعہ کو متی اٹھائیس باب گیارہ سے پندرہ آیات میں پڑھ سکتے ہیں ۔ اس واقعہ میں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ جو لوگ یسوع کی قبر کی نگہبانی کررہے تھے وہ اس کے جی اٹھنے کو دیکھ کر گھبرا گئے ۔ انہوں نے یہ خبرجا کر سردار کاہن اور بزرگوں کو دی ۔ اس پر ان بزرگوں اور سردار کاہن نے ان نگہبانوں کو پیسے دے کرکہا کہ لوگوں میں یہ مشہور کر دو کہ یسوع کی لاش کو اس کے شاگرد چرا لے گئے ۔ یہ بات اتنی جھوٹی تھی کہ متی نے اس کی تردید کرنے کی کوشش نہ کی ۔ مثال کے طور پر اگر آپ عدالت میں یہ بات کہیں کہ آپ جب سو رہے تھے تو آپ کا ہمسایہ آپ کا ٹی وی چرا کر لے گیا ۔ یہ بات بہت ہی احمقانہ ہے کیونکہ آپ سوتے ہوئے کسی کی شناخت نہیں کر سکتے ۔
مزید ہم اس بات پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ سیکھتے ہیں کہ شاگردوں کےلئے ایسا کام کرنا ناممکن تھا ۔ کیونکہ یہ ایک انتہائی گری ہوئی اخلاقی حرکت ہوتی ۔ لیکن اگر یسوع مسیح کے کچھ ساتھی ایسا کرتے بھی تو یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنے دوسرے ساتھیوں کو اس کے متعلق نہ بتاتے ۔ یسوع کے ہر شاگرد نے اس کی خاطر قیدو بندکی صحبتیں برداشت کیں ۔انہیں کوڑے لگائے گئے ، انہیں دربدر کی ٹھوکریں او ر رسوائی برداشت کرنا پڑی ۔ حتیٰ کہ آخرکار انہیں یسوع کی خاطر شہید ہونا پڑا ۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ اتنے سارے لوگ کیوں ایک جھوٹ کو چھپانے کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کریں گے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہودی اور رومی عہدیداروں نے مل کر یسوع کی لاش کو کہیں چھپا دیا لیکن ایسا ممکن نہیں ۔کیونکہ انہوں نے خود یسوع کی قبر پر پہرے داروں کو بٹھایا تھا ۔ دوسری جانب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ شاگرد یروشلیم میں لوگوں کے درمیان یسوع کے جی اٹھنے کی منادی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن صاحبِ اختیار اس بات پر خاموش تھے ۔ مذہبی رہنما بہت زیادہ غصہ میں تھے ۔ وہ یسوع مسیح کے جی اٹھنے کی منادی کو ختم کروانا چاہتے تھے ۔ انہوں نے پطرس اور یوحنا کو گرفتار کروا کر دھمکی دی کہ یسوع کے جی اُٹھنے کی منادی کو بند کردو ۔اور بعد میں کوڑے لگوا کر اُنہیں چھوڑ دیا ۔
ان سب باتوں کے علاوہ اگر صاحب اختیار نے یسوع کی لاش کو چھپایا ہوتا تو وہ ضرور اس کو عوام کے سامنے لاتے ۔ اور یسوع مسیح کے جی اٹھنے کی منادی کو غلط ثابت کرتے ۔ اس طرح وہ باآسانی مسیحیت کو یروشلیم میں سے ختم کر سکتے تھے ۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ان کے پاس یسوع کی لاش نہ تھی ۔
یسوع مسیح کے مرُدوں میں سے جی اُٹھنے کے متعلق ایک اور رائے پائی جاتی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ جب مریم اور اُس کی ساتھی عورتیں منہ اندھیرے یسوع کی قبر پر اُس کے بدن کو خوشبو لگانے جارہی تھیں تووہ غلطی سے کسی دوسری خالی قبر پر چلی گئیں ۔ اس طرح انہوں نے مشہور کر دیا کہ یسوع مسیح مردوں میں سے جی اٹھا ہے اور اس کی قبر خالی ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر یسوع کے دشمن اور سردار کاہن اس کی اصلی قبر پر کیوں نہ گئے تاکہ اسکی لاش کو لوگوں کے سامنے لاتے۔ یہ بات اس لئے بھی ناقابل بھروسہ ہے کہ یوحنا ، پطرس اور ارمتیا کا یوسف ان عورتوں کی طرح دھوکا نہیں کھا سکتے ۔ اور اگر اس قبر کی جگہ کا معائنہ کیا جائے تو وہ کسی عوامی قبرستان میں نہ تھی بلکہ وہ تو کسی کی ذاتی جگہ پر ایک ہی قبر تھی ۔ اس وجہ سے اس قبر کو ڈھونڈنے میں کسی غلطی یادھوکے کی کوئی گنجائش نہیں رہتی ۔
یسوع مسیح کے جی اُٹھنے اور اُن کی خالی قبر کے متعلق ایک اور نظریہ پایہ جاتا ہے ۔اس نظریہ کے مطابق خداوند یسوع مسیح صلیب پر مرے نہیں تھے بلکہ بے ہوش ہو گئے ۔ کیونکہ ان کے بدن سے بہت زیادہ خون بہہ چکا تھا۔ اور وہ زخموں سے چور تھے۔ اسلئے وہ بے سود ہوگئے ۔ اور اسی حالت میں انہیں قبر میں اتار دیا گیا جہاں وہ قبر کی ٹھنڈک پاکر دوبارہ اٹھ گئے۔اور پھر اپنے شاگردوں سے ملے جس پر انہوں نے یسوع کے جی اٹھنے کی خبر مشہور کر دی ۔
دراصل یہ نظریہ جدت پسندوں کا قائم کردہ ہے ۔ یہ سب سے پہلے اٹھارہویں صدی میں عوام میں مقبول ہوا ۔ یہ بات نہایت ہی دلچسپ ہے کہ مسیحیت پر اس طرح کے سب حملوں میں کسی قسم کے آثارِ قدیمہ کے ثبوت نہیں ملتے ۔آثارِ قدیمہ سے جتنے بھی شواہد دریافت ہوئے وہ سب یسوع مسیح کے جی اٹھنے کی گواہی دیتے ہیں ۔
ان حقائق کے باوجو داگر ہم یہ فرض کر لیں کہ یسوع مسیح صلیب پر نہ مرے بلکہ انہیں بے ہوشی کے عالم میں قبر میں اتارا گیا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ وہ خود کو کفن پھاڑ کر قبر میں سے باہر نکالتا ۔ اور قبر کے دھانے پر رکھے منوں وزنی پتھر کو ہٹا کر رومی سپاہیوں کو مار کر میلوں دور اپنے شاگردوں سے ملنے چلا جاتا جب کہ اس کے بدن کا ساراخون بہہ چکا تھا ۔اس کے ہاتھوں اور پائوں میں کیلوں سے سوراخ کر دیئے گئے تھے اور اس کی پسلی میں نیزہ ماراگیا ۔ کیا ان سب باتوں کے باوجود وہ قبر میں تین روز تک بھوکا ، پیاسا اور زخموں میں چور زندہ رہ سکتا تھا۔ میَں سمجھتا ہوں کہ کوئی بھی قابل فہم شخص اس بات پر یقین نہ کرے گا ۔
حتیٰ کہ جرمنی کا تنقید نگار ڈیوڈ سٹراس جو کہ یسوع کے مردوں میں سے جی اٹھنے پر بالکل یقین نہیں رکھتا اس بات کو ناقابل یقین قراردیتا ہے ۔اس نے کہا ’’یہ بات ناممکن ہے کہ ایک شخص جو پژمردہ قبر میں رکھا گیا، اورجسے بہت زیادہ چوٹوں اور خون بہہ جانے کی وجہ سے طبی علاج ، طاقت اور نگہداشت کی ضرورت ہو چل کر اپنے شاگردوں کے پاس جائے۔ اور ان سے کہے کہ میں نے موت پر فتح پالی ہے۔ اور میں ہی زندگی کا بادشاہ ہوں ۔ پھر بھی اگر یہ بات سچ ہے کہ یسوع مردوں میں سے جی نہ اٹھا تو وہ جھوٹا تھا ۔لیکن ایسا نہیں ہے کیونکہ جب یسوع مردوں میں سے جی اٹھا اور اس کے شاگردوں نے اس بات کی منادی کی تو اس نے انہیں روکا نہیں بلکہ ان کی حوصلہ افزائی کی ۔
آخر میں ہم اس بات پر روشنی ڈالتے ہیں کہ صرف ایک نظریہ ’’یسوع مسیح مردوں میں سے جی اٹھا ہے ‘‘یسوع مسیح کی قبر کو خالی قرار دیتاہے ۔یسوع کے شاگرد جنہوں نے اس کی مصیبت کی گھڑی میں اسکا ہاتھ چھوڑ دیا اس کے مردوں میں سے جی اٹھنے پر ایمان لے آئے۔ ان کا یہ اعتقاد محض خالی قبر کی وجہ سے نہ تھا بلکہ یسوع مسیح نے خود کو کئی مرتبہ ان پر ظاہر کیا تھا ۔
جب توما رسول کو یہ خبرملی کہ سب شاگرد یسوع کے مردوں میں سے جی اٹھنے پر ایمان لے آئے تو اس نے کہا ’’جب تک میَں اس کے ہاتھوں میں میخوں کے سوراخ نہ دیکھ لوں اور میخوں کے سوراخوں میں اپنی انگلی نہ ڈال لوں اور اپناہاتھ اس کی پسلی میں نہ ڈال لوں ہرگز یقین نہ کروں گا۔‘‘ایک ہفتہ کے بعد یسوع اپنے شاگردوں پر دوبارہ ظاہر ہوا ۔ اس وقت توما بھی اس کے ساتھ تھا۔ یسوع نے توما سے کہا’’اپنی انگلی پاس لا کر میرے ہاتھوں کودیکھ اور اپنا ہاتھ پاس لا کر میری پسلی میں ڈال اوربے اعتقاد نہ ہو بلکہ اعتقاد رکھ ۔‘‘توما نے جواب میں کہا’’اے میرے خداوند اے میرے خدا ‘‘یسوع نے اس سے کہا ’’تو تو مجھے دیکھ کر ایمان لایا ہے ۔ مبارک وہ ہیں جوبغیر دیکھے ایمان لائے ۔‘‘اب ہمارے پاس ایک موقع ہے کہ یسوع مسیح کوبغیر دیکھے اس پر ایمان لے آئیں ۔ اس کے خدا ہونے کا اقرار کریں اور ابدی زندگی پائیں ۔
دورِ حاضر میں خداوند یسوع یہ نہیں چاہتا کہ ہم صرف اس کی پرستش کریں ۔ وہ تو اب ہماری زندگیوں کا حصہ بننا چاہتا ہے ۔ مشہور نفسیات دان کا رل یونگ نے یہ کہا’’خالی پن ہمارے وقت کا بنیادی عنصر ہے۔‘‘اسی طور سے ہرانسان کے اندر ایک خلا موجود ہے ۔ہر شخص اپنی زندگی کو معنی خیز بنانا چاہتا ہے اور اپنے اندر کے خلا کو پُر کرنا چاہتاہے ۔ یسوع آج ہمیں ایک ایسی زندگی بخشتا ہے جو پُر معنی اور کثرت کی زندگی ہے ۔ اس نے کہا ’’میں اس لئے آیا کہ تم زندگی پائو اور کثرت کی زندگی پائو ۔‘‘اور یہ کثرت کی زندگی ہم صرف اس کے ساتھ ایک رشتہ قائم کر کے ہی حاصل کرتے ہیں ۔
خداوند یسوع مسیح مزید اس بات پر روشنی ڈالتے ہیں ۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ میَں دُنیا کا نور ہوں ۔ اور جو کوئی مجھ پر ایمان لاتاہے وہ اندھیرے میں نہیں بلکہ اس میں زندگی کا نور ہے ۔ اسی لئے اس نے صلیب پر ہم سب کی خاطر اپنی قیمتی جان دے دی ۔ اور ہماری خاطر اپنا قیمتی لہو بہا کر ہماری جان کا پورا پورا فدیہ اداکیا تاکہ ہم آئندہ کو موت میں نہ رہیں بلکہ زندگی میں چلیں ۔
اس لئے میرے عزیزو آپ کے پاس آج ایک موقع ہے کہ آپ اس کو اپنا شخصی نجات دہندہ قبول کر لیں ۔ یسوع نے کہا ’’دیکھ میَں دروازہ پر کھڑا ہوا کھٹکھٹاتاہوں ۔اگرکوئی میری آواز سن کر دروازہ (دل کادروازہ) کھولے گاتو میں اس کے پاس اندر جاکر اس کے ساتھ کھانا کھائوں گا اور وہ میرے ساتھ ۔‘‘
آج آپ بھی خداوند یسوع مسیح کو اپنے دل میں آنے کی دعوت دے سکتے ہیں ۔ آ پ اسے اس طور سے دعوت دے سکتے ہیں :’’خداوند یسوع مسیح ناصری میں ایمان لاتا ہوں کہ توزندہ خداکا بیٹامسیح ہے۔ تو نے میرے گناہوں کی خاطر صلیب پر اپنی جان دی ۔ اب میں اپنے گناہوں کا اقرار کرتاہوں اور تجھ سے معافی مانگتا ہوں ۔ خداوند یسوع تو میری زندگی میں آمیَں تیرا شکر کرتا ہوں کہ تو نے مجھے اپنے پاک بندھن میں باندھ لیا ہے‘‘